• news

پاکستان کو کبھی بھی دفاع و سلامتی کے شعبہ میں امریکہ سے غیر معمولی امداد نہیں ملی

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) ٹرمپ انتظامیہ کی دھمکیوں پر عملدرآمد کے نتیجہ میں پاکستان تین اقسام کی امریکی مدد سے محروم ہو سکتا ہے۔ یہ امداد معیشت، سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں دی جاتی ہے جب کہ سفارتی سطح پر پاکستان ور امریکہ کے درمیان سٹرٹیجک ڈائیلاگ بھی ختم ہو سکتا ہے۔مذکورہ تمام مدوں میں پاکستان کیلئے امریکی امداد سے متعلق سرکاری ذرائع کے مطابق ، دونوں ملکوں کے زوال پذیر تعلقات کی وجہ سے امریکہ کی مدد اب محض علامتی نوعیت کی رہ گئی ہے اور امریکیوں کو خود بھی بخوبی علم ہے کہ امداد کی بند ش کی دھمکی دے کر پاکستان پر زیادہ دباﺅ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس ذریعہ کے مطابق مسئلہ امریکی امداد کا درپیش نہیں بلکہ پاکستان اور امریکہ دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے باہمی تعلقات اس سطح سے کم نہیں ہونے چاہییں جہاں ان کے درمیان براہ راست روابط انتہائی کم یا ختم ہو جائیں۔ جہاں پاکستان ایک سپر پاور سے مکمل قطع تعلقی کا متحمل نہیں ہو سکتا وہیں ، امریکہ سمیت سب ہی متفق ہیں کہ افغان مسئلہ کے سیاسی حل کی راہ اسلام آباد سے ہو کر ہی گزرتی ہے۔ اسی لئے باور کیا جاتا ہے کہ دونوں ملک، ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی اعلان کے باوجود فوری طور پر ایک دوسرے کے خلاف انتہائی اقدامات سے گریز کریں گے۔پاکستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی ہے جس پر امریکہ کو کرارا جواب دینے کیلئے رائے عامہ کا سخت دباﺅ ہے لیکن اسلام آباد نے اب تک اپنے رد عمل میں سنجیدگی اور پختگی کا ثبوت دیا ہے جب کہ اسلام آباد میں امریکی سفیر بھی اپنی بساط کے مطابق امریکہ کی نئی پالیسی کے ایسے پہلوﺅں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کی رائے میں پاکستان کیلئے مثبت ہیں۔ امریکہ کی نئی پالیسی کے اعلان میں پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کے منصب سے محروم کرنے کی بھی دھمکی دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ، نان نیٹو اتحادی بننے کے باوجود پاکستان کو کبھی بھی امریکہ سے دفاع و سلامتی کے شعبہ میں غیر معمولی امداد نہیں ملی۔ معاشی امداد کی مد میں پاکستان کو ایک زمانہ میں بجٹ خسارہ درست کرنے کیلئے مدد ملتی تھی لیکن اب معاشی امداد زراعت، توانائی، صحت اور تعلیم جیسے سماجی بہبود کے شعبوں تک محدود ہو گئی ہے۔سیکورٹی کے شعبے میں امداد انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات،فوجی تربیت،فارن ملٹری سیلز پروگرام کے تحت امریکی اسلحہ و آلات کی خریداری کیلئے رقم کی فراہمی، اور فالتو فوجی سازوسامان کی فروخت شامل ہے۔واضح رہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ امدادی رقم نہیں بلکہ امریکہ کی معاونت کیلئے انسداد دہشت گردی کے جو آپریشن پاک فوج کرتی ہے اس پر اٹھنے والے اخراجات اس مد میں پاکستان کو ادا کئے جاتے ہیں۔ اب رہا نان نیٹو اتحادی ہونے کا معاملہ تو اس استحقاق کا پاکستان کو واحد فائدہ یہ ہے کہ اسے طریقہ کار کی پیچیدگیوں اور رکاوٹوں سے بچ کر قدرے سرعت سے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی ہو سکتی ہے لیکن امریکی ہتھیاروں کی پاکستان کو فروخت تو پہلے ہی عملاً بند ہو چکی ہے سو پاکستان نان نیٹو اتحادی رہے یا نہ رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔2016 میں حقانی نیت کی مدد کا الزام عائد کر کے امریکی کانگرنس پہلے ہی ،پاکستان کو آٹھ عدد ایف سولہ طیاروں کی فروخت روک چکی ہے۔ بحریہ کیلئے چارلی کلاس کا ایک پرانا فریگیٹ برسوں پہلے پاکستان کو فراہم کیا گیا تھا، وہ سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ لے دے کر اے ایچ ون زیڈ وائپر ہیلی کاپٹر ملنے کا امکان ہے جو انسداد دہشت گردی کیلئے بروئے کار لائے جائیں گے۔ امریکہ کی پائپ لائن میں ایسی کوئی امداد نہیں ہے جسے وہ کلی طور روک کر پاکستان کو دباﺅ میں لا سکے۔ایف سولہ طیاروں کی بھارت میں تیاری کے ممکنہ معاہدہ کے تحت،پاکستان ویسے بھی مستقبل قریب میں ایف سولہ کا باب بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا جس کے بعد ،پاکستان پر امریکی دباﺅ مزید کم ہو جائے گا۔ امریکی اخبار اور مبصرین ، ٹرمپ انتظامیہ کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان کو دیوار سے لگانے کا طریقہ کام نہیں کرے گا۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کی افواج کے درمیان تعلق بدستور مضبوط ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے دونوں ملک بداعتمادی کی گہری خلیج کو کم کر سکتے ہیں جس کے بعد سفارتی سطح پر بھی پیشرفت ہو سکتی ہے۔
امریکہ/ امداد

ای پیپر-دی نیشن