الزام اور انعام ایک جیسے؟
کئی برسوں کی تحقیقات کے بعد ’’صدر‘‘ آصف زرداری کو آخری ریفرنس میں بھی باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنے جب ’’صدر‘‘ آصف زرداری اپوزیشن میں تھے اور ان کی بریت کا فیصلہ بھی آیا جب وہ اپوزیشن میں ہیں۔
انہوں نے بارہ سال کی جیل بغیر کسی قصور کے کاٹی۔ غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ سب سے لمبی قید ہے۔ جسے قید بامشقت کہنا چاہیے۔ زرداری صاحب نے بڑی خوش دلی اور جرات سے قید کاٹی۔ اس قید کی مدت تقریباً بارہ سال بنتی ہے۔ اسی لیے مرشد و محبوب ایڈیٹر نوائے وقت آبروئے صحافت مجید نظامی نے انہیں ’’مرد حر‘‘ کا خطاب دیا تھا جسے بڑی پذیرائی ملی جبکہ نوائے وقت مسلم لیگ کا اخبار سمجھا جاتا ہے۔ زرداری صاحب نوائے وقت کے دفتر میں نظامی صاحب سے ملنے آئے تھے۔
میں بھی نوید چودھری اور منور انجم کے ساتھ زرداری کو ملنے کوٹ لکھپت جیل میں ان سے ملنے گیا۔ ایک عجب اطمینان اور سرشاری ان کے چہرے پر تھی۔ وہاں پر 100 سے زائد لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کی تھی۔ خوب گپ شپ رہی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ ہم کسی قیدی سے بات کر رہے ہیں۔ تب ان کی شخصیت میں قیدی اور قائد کا فرق مٹ گیا تھا۔
شریف فیملی کے ساتھ مجید نظامی کا تعلق بہت گہرا اور پرانا ہے۔ نواز شریف نے گلہ کیا کہ مجھے کوئی خطاب کیوں نہیں دیا گیا تو نظامی صاحب نے فرمایا کہ تم بھی آصف زرداری کی طرح استقامت دکھاتے، دلیری کے ساتھ جیل کاٹتے تو میں تمہیں بھی خطاب دیتا۔ مشکلوں سے راہ فرار عظمتوں سے ہمکنار نہیں کرتا۔
سنیٹر برادرم عبدالقیوم سومرو نے بتایا کہ میں نے زرداری صاحب کے ساتھ جیل بھی کاٹی۔ میں نے 24 گھنٹے انہیں دیکھا میں نے زرداری صاحب جیسا بہادر اور صابر و شاکر آدمی نہیں دیکھا۔ کسی بھی سیاستدان سے بڑھ کر انہوں نے جیل کاٹی۔ وہ کراچی جیل میں تھے جب نواز شریف کو بھی جنرل مشرف نے وہاں بھیجا۔ زرداری صاحب نے انہیں پھول بھجوائے۔ کھانا بھی بھجوایا اور انہیں حوصلہ بھی دیا مگر نواز شریف کلثوم نواز کی تحریک کے نتیجے میں صدر رفیق تارڑ کی کوششوں سے جدہ سعودی عرب چلے گئے۔ جنرل مشرف نے انہیں سعودی عرب جلا وطن کر دیا جسے جلاوطنی ماننے سے نواز شریف انکار کرتے ہیں۔ نجانے وہ اسے کیا سمجھتے ہیں۔ بہرحال وہ معافی نامے محفوظ ہیں۔ جن پر جنرل مشرف ’’صدر‘‘ رفیق تارڑ اور نواز شریف کے دستخط ہیں۔ وہ جدہ کے سرور محل میں مقیم رہے۔ جس کے لیے مجید نظامی نے یہ جملہ کہا کہ وہ سرور محل میں سرور لیتے رہے۔ نظامی صاحب نے ہمیشہ شہباز شریف کو زیادہ پسند کیا۔
یہ سیاسی دانائی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے بلاول کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا اور خود شریک چیئرمین بن گئے۔ شریک چیئرمین کی اصطلاح بھی اچھی اور معنی خیز ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ڈپٹی چیئرمین نہیں کہا بلکہ بیٹے کی قیادت میں خودکو شریک کیا۔ انہوں نے بلاول کو ’’میرا چیئرمین‘‘ کہہ کر بات شروع کی اور اسے بھٹو کا نام دیا۔ جو بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کی نسبت کو قائم رکھتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری۔ اپنی نسبت سے پہلے بھٹو کی نسبت اپنے بچوں کو دی۔
’’صدر‘‘ زرداری سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی میں آپ کی ہاں اور ناں کسی فیصلے کے لیے ضروری ہوتی ہے تو زرداری صاحب نے اپنی روائتی ہنسی میں جواب دیا کہ میرا چیئرمین بلاول نوجوان ہے اور جوانی کسی کی نہیں سنتی۔ وہ اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ لہٰذا کسی کے ناراض ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ ان کی محفل دوستانہ اور بے تکلفانہ ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
کل کے کالم میں قصور کے ایک قصبے پیال کلاں کا ذکر تھا کہ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اس گائوں کے رہنے والے ہیں۔ مجھے وہاں سے چودھری سبحان نے فون پر بتایا کہ سردار آصف احمد علی وہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہ بھی وزیر خارجہ تھے۔ ہمارے سارے وزرائے خارجہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے ہاں وزیراعظم بھی وزیر خارجہ ہوتے ہیں۔ مجھے جتنا غم وزیر خارجہ کے لیے ہے وزیراعظم کے لیے نہیں۔