• news

صوبوں کی سفارش پر مردم شماری رزلٹ چیک کرایا جائے:سینٹ کمیٹی: فوج ادارہ شماریات کے نتائج ایک ہیں :آصف باجوہ

اسلام آباد(نامہ نگار + نیوز ایجنسیاں)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کو کل بلاکس کے ایک فیصد میں پوسٹ مردم شماری کرانے کی سفارش کر دی ہے تاکہ مردم شماری کے حوالے سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اور خدشات کو دور کیا جا سکے،پوسٹ مردم شماری کے حوالے سے ہر صوبہ اپنے بلاکس کی نشاندہی کرے گا۔ سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں منعقد ہونے والی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری و شماریات نے مردم شماری کی حتمی رپورٹ جلد جاری کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔کمیٹی نے کہا مردم شماری کے حوالے سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس حوالے سے پرانے اور نئے علاقوں میں کچھ فرق بھی سامنے آرہے ہیں جس کادوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ مردم شماری پر17ارب سے زائد خرچ ہوئے۔ نتائج پر بے شمار اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں، مردم شماری میں فوج نے بھر پور ساتھ دیا ہے۔ لاہور کی اربن بانڈری میں اضافہ کیا گیا ہے اور پنجاب کی شہری آبادی میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج، مردم شماری کے طریقہ کار اور نتائج کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری شماریات رخسانہ یاسمین اور چیف شماریات آصف باجوہ نے قائمہ کمیٹی کو مردم شماری کے طریقہ کار اور نتائج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردم شماری دو مراحل میں فوج کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ تمام فارمز کی سکینگ کا عمل جاری ہے اور حتمی رپورٹ اپریل 2018تک مرتب کر لی جائے گی۔ مردم شماری کیلئے ایک لاکھ20ہزار اینومینیٹرز کو تربیت فراہم کی گئی اور ملک کو 1لاکھ68 ہزار بلاکس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک بلاک میں 2سو سے 250گھر شامل کیے گئے۔ گھر کے سربراہ کا شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ کر کے تصدیق کی گئی۔42ہزار فارمز میں سے 8فیصد عملی چیک کیے گئے۔ پاک فوج کے 2لاکھ فوجی مردم شماری کیلئے متعین کیے گئے جن میں سے 44ہزار نے اینو مینیٹر کے طور پر ڈیٹا مرتب کیا۔ فوج کا کام سیکیورٹی،شفافیت اور کریڈبیلٹی فراہم کرنا تھا۔مردم شماری کے دوران آرمی محافظوں پر ایک خود کش حملہ ہوا جس میں فوج کے چار جوان شہید ہوئے۔10اینومینیٹرز ٹریفک حادثات میں انتقال کر گئے اور 19زخمی ہوئے اور چمن میں افغان فورسز کے ساتھ بھی جھڑپ ہوئی تھی۔ مردم شماری پر 17ارب26کروڑ روپے خرچ ہوئے۔تصدیق کیلئے ہر ضلع کے فارمIIکا 8فیصد آئی سی آر کے فارم کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20کروڑ 70لاکھ ہے اور شرح نمو 2.4فیصد ہے۔ اسلام آباد اور بلوچستان کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے جبکہ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13.23کروڑ تھی۔ ملکی آبادی میں 1998کی نسبت 2017میں خیبر پی کے کی آبادی 13.4سے بڑھ کر14.7فیصد، بلوچستان کی 4.9سے بڑھ کر5.9، فاٹا کی2.4سے2.41 ، سندھ کی23.00سے23.05فیصد، اسلام آباد کی 0.61سے0.9فیصد جبکہ صوبہ پنجاب کی 55.63سے52.95فیصد پر مشتمل ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لاہور کی بانڈری لائن میں بھی اضافہ کیا گیا اور دیہی آباد ی کی نسبت شہری آباد ی میں زیادہ اضافہ ہو اہے اور صوبہ سندھ کی شہری آباد ی میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی14.9ملین، لاہور کی11.1، فیصل آباد3، راولپنڈی2.1ملین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں مردوں کی تعداد 106.45ملین، خواتین کی تعداد101.3ملین ہے۔مردم شماری کیلئے پورے ملک کو 150ایڈمن اضلاع اور 458مردم شماری اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ ملک کی ایک تہائی آبادی کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔مردم شماری کے دوران 20فیصد شناختی کارڈز کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی گئی۔ آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ فوج اور وزارت شماریات کے پاس مردم شماری کا ایک ہی ریکارڈ موجود ہے۔ مردم شماری میں خود کو خواجہ سرا ظاہر کرنے والوں کو شامل کیا گیا ہے۔ مردم شماری کے حوالے سے نتائج پر جذباتی طور پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اگر کسی کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو آگاہ کریں ان کی تصدیق کرائی جائے گی۔ اعتراضات دور کیے جائیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردم شماری کے دوران بلوچستان میں 63 بچوں والا شخص بھی سامنے آیا تھا۔مردم شماری میں بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو شمار نہیں کیا گیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ شرح نمو میں کمی دکھائی جارہی ہے جبکہ حقیقت میں آبادی کو کنڑول کرنے کیلئے کسی بھی حکومت نے اقدامات نہیں اٹھائے۔ اراکین کمیٹی نے آبادی میں اضافہ کی شرح پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 42ملین گھروں کے سربراہوں کے شناختی کارڈز میں سے 6.5ملین کی تصدیق بھی کرائی گئی۔ سینیٹر زمحسن عزیزاور سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ہم سے رابطہ کیے بغیر ہمارے ملازمین سے معلومات حاصل کی گئی ہیں جس پر چیف شماریات نے کہا کہ گھر کے کسی فرد کے پاس شناختی کارڈ کی موجودگی میں معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سلیم مانڈوی والا اور حمزہ کے علاوہ سیکرٹری شماریات رخسانہ یاسمین، چیف شماریات آصف باجوہ اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ صباح نیوز/نوائے وقت نیوز کے مطابق اجلاس کے دوران کمیٹی ممبر سلیم مانڈی والا نے آصف باجوہ سے سوال کیا کہ کیا فوج اور شماریات ڈویژن کے اعداد و شمار ایک جیسے ہیں؟ جس پر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج کے پاس بھی مردم شماری کے یہی نتائج ہیں۔سلیم مانڈی والا کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ نے کہا پاک فوج کے پاس مردم شماری کے الگ نتائج ہیں، آصف باجوہ نے جواب دیا کہ خورشید شاہ کو اپنے بیان کی وضاحت کرنی چاہیے۔اس موقع پر کمیٹی چیئرمین محسن عزیز نے کہا کہ کراچی کی آبادی کے بارے میں کہا گیا 2 کروڑ ہے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے دوران مردم شماری کیسے کی گئی ؟ جنوبی وزیرستان میں لوگ موجود نہیں تھے، گھر تباہ ہوچکے تھے۔محسن عزیز کے سوال پر آصف باجوہ نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں خانہ شماری کے بلاکس تھے جس کے تحت وہاں مردم شماری کی گئی ہے۔ آصف باجوہ نے کہا ہم نے جب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نتائج پیش کیے تب کسی وزیر اور صوبے کی جانب سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا یہ اعتراضات بعد میں سامنے آئے ہیں۔آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا ہم نے صرف 65لاکھ افراد کے شناختی کارڈز کی تصدیق کروائی۔ نادرا کے پاس صرف13کروڑ افراد کا ڈیٹا ہے، باقی سات کروڑ افراد کا ڈیٹا نادرا کے پاس نہیں۔ چیف شماریات کا کہنا تھا کہ مردم شماری نتائج میں خواجہ سراؤں کی تعداد اس لیے کم ہے کہ یہ رسپانڈنٹ بیس ہے جس پر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ خو اجہ سراء سراپا احتجاج ہیں کہ ہماری آبادی زیادہ ہے۔ چیف شماریات کا کہنا تھا ہم نے ان تمام افراد کو شمار کرنا ہے جو پاکستانی ہیں اور یہاں کے مقامی ہیں، بلا تفریق شہریت، قانونی و غیر قانونی تمام افراد کو شمار کیا گیا ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس مردم شماری میں شمار نہیں کئے گئے۔ چیئرمین کمیٹی محسن عزیز نے پوچھا یہ مردم شماری کا عمل کس نے پورا کیا ہے؟ آصف باجوہ نے بتایا کہ مردم شماری کے عمل میں صوبائی حکومتوں کے ملازمین نے کام مکمل کیا ہے، تو محسن عزیز کا کہنا تھا کہ آپ کی پوری وزارت بن رہی ہے آپ دس سال سے کیا کر رہے ہیں؟۔ آصف باجوہ نے بتایا کہ میرے پاس اتنی افرادی قوت نہیں، ہمارا کام پالیسی دینا اور ڈیزائن دینا ہے۔ چیف شماریات کا کہنا تھا کہ جب آپ نتائج کو مسترد کر رہے ہیں تو ہم یہ جاننے کیلئے حق بجانب ہیں کہ کس بنیاد پر مسترد کر رہے ہیں؟ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ 24 بلاکس کو بطور نمونہ چن لیا جائے، جس پر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کے لیے دوبارہ وہی ماحول اور فوج درکار ہوگی، کمیٹی نے 1680 بلاکس میں دوبارہ سروے کی سفارش کر دی۔شماریات بیورو کے ترجمان حبیب اللہ خٹک نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ مردم شماری کے حوالے سے کوئی اختلافات نہیں‘ دو شہروں میں شہری اور دیہی آبادی کے ضابطوں کی وجہ سے فرق آ سکتا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے شکایت کی ہے رگنگ اگلے برس ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اکثریت کی وجہ ہو سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن