گھریلو تشدد کیخلاف بل پر اعتراض غیرضروری ہے: وزیر اطلاعات خیبر پی کے
پشاور (بی بی سی اردو) خیبر پی کے کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے کہا ہے کہ خواتین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے کا قانون صوبائی اسمبلی میں جلد پیش کر دیا جائے گا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ چونکہ اس بل کی تیاری میں تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین ارکان شامل رہی ہیں اس لیے اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ جماعت اسلامی کی رکن صوبائی اسمبلی کی جانب سے خواتین پر گھریلو تشدد کو روکنے کے مجوزہ قانون پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس بل کی تیاری میں خواتین ارکان صوبائی اسمبلی پر مشتمل 'کاکس' کا اہم کردار ہے۔ 'اس کاکس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ارکان بھی شامل ہیں اس لیے ان 22 ارکان کے مشورے سے بننے والے بل پر بلاوجہ کا اعتراض غیر ضروری ہے۔' تاہم انہوں نے کہا کہ اس قانونی مسودے پر ابھی اسمبلی میں بحث ہو گی اور سول سوسائٹی کے ارکان اس بحث میں ارکان صوبائی اسمبلی کے ذریعے اپنا مو¿قف پیش کر سکتے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے کارکنوں کی جانب سے اس مجوزہ قانون پر سنگین اعتراضات سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں بلوغت کی عمر کا تعین 18 سے کم کر کے 15 سال کرنا، اصلاح کی غرض سے والد اور شوہر کو 'اقدامات' کی اجازت دینا اور گھریلو تشدد کی تعریف سے نفسیاتی اور معاشی تشدد کو حذف کرنا شامل ہے۔ شاہ فرمان نے نئے قانون کی ان شقوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بن سکتا اس لیے جو چیز ہمارے رواج اور مذہب نے طے کر رکھی ہے اس پر بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ ’یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے کہ اصلاح کے لئے کہیں تشدد تو نہیں کیا جا رہا۔ موجودہ قانون پر خواتین کے حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید اعتراضات سامنے آ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی اس بل پر کام کرنے والی ایک متحرک خاتون رکن صوبائی اسمبلی راشدہ رفعت نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بل میں انھوں نے جو تجاویز دی ہیں وہ شریعت کے مطابق ہیں۔ 'ہم نے شریعت کی حدود کے اندر رہ کر جو بل تیار کیا ہے۔ اس پر اعتراض اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اب جو تشدد ہو رہا ہے اسے بھی روکا نہیں جا سکتا۔' سول سوسائٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ بل میں ایسی تجاویز شامل ہیں جس سے گھریلو تشدد بڑھنے کا امکان ہے۔ رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ اس مجوزہ بل میں ایسی متعدد تجاویز ہیں جس سے وہ متفق نہیں ہیں۔ رخشندہ ناز کے مطابق خیبر پی کے اسمبلی میں خواتین کو چاہیے تھا کہ اپنے مقدمے کا اسلامی نظریہ کونسل میں دفاع کرتیں لیکن اراکین اسمبلی نے کونسل کی تجاویز کو ہی اس بل کا حصہ بنا لیا ہے اس لیے اگر اس مجوزہ بل کو دیکھا جائے تو اس میں ایسی دیگر تجاویز بھی ہیں جس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔