• news

بینظیر قتل:سعود عزیز خرم شہزاد کو 17 , 17سال قید مشرف اشتہاری

راولپنڈی (محمد رضوان ملک+ نیوز رپورٹر+اپنے سٹاف رپورٹر سے) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قریباً دس سال بعد سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سمیت 23 افراد کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حقائق چھپانے، درست تفتیش نہ کرنے اور جرم ثابت ہونے پر سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزاد کو 17/17 سال قید اور پانچ لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا سنا دی جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے مسلسل عدم حاضری پر ان کے دائمی وارنٹ جاری کرتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیدیا۔ دیگر نامزد پانچ ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا۔ مقدمہ میں نامزد 7 ملزمان کو مسلسل عدم حاضری پر عدالت پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ اڈیالہ جیل میں سنائے گئے فیصلے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر نے سعود عزیز اور خرم شہزاد کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 119 کے تحت 10,10 سال قید اور دفعہ 201 کے تحت 7,7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو27 دسمبر2007 کو لیاقت باغ میں فائرنگ اور خودکش دھماکے میں اس وقت جاں بحق ہوگئی تھیں جب وہ انتخابی مہم کے حوالے سے راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں جلسہ کے اختتام پر واپس روانہ ہو رہی تھیں۔ سانحے میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ 23کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔ ایس ایچ او تھانہ سٹی کاشف ریاض کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تاہم بعدازاں اس میں تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو ملزم نامزد کرنے کے بعد مرحلہ وار سابق صدر پرویز مشرف، سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد سمیت 15افراد کو بطورملزم نامزدکیا گیا جن میں سے پرویز مشرف، سعود عزیز اور خرم شہزادپر مشتمل 3 ملزم ضمانت پر تھے جبکہ محمد رفاقت، حسنین گل، شیر زمان، رشید احمد اور اعتزاز شاہ پر مشتمل 5 ملزمان گرفتاراڈیالہ جیل میں تھے اور بیت اللہ محسود، عباد الرحمان عرف نعمان عرف عثمان، عبداللہ عرف صدام، فیض محمد، اکرام اللہ، نصراللہ، نادر عرف قاری اسماعیل پر مشتمل 7 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ان افراد کی فوج کے مختلف آپریشنز میں مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس مقدمہ میں استغاثہ کی جانب سے 139 گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی جبکہ بعدازاں ان گواہوں کی تعداد کم کر دی گئی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے فروری 2008کو عدالت میں پیش کیا۔ بعدازاں وفاقی حکومت کی ہدایت پرمقدمے کی ازسرنو تحقیقات فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے حوالے کر تے ہوئے ایک نئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی جس نے حتمی چالان اگست 2013ء میں پیش کیا گیا۔ یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو دھماکہ ہوا، 2 گھنٹے بعد تھانہ سٹی کے ایس ایچ او کاشف ریاض کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی جس میں سے 5 ملزمان رفاقت، حسنین گل، ر شید احمد، شیر زمان اور اعتزاز شاہ پہلے سے گرفتار تھے تاہم عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ سنایا۔ مقدمہ میں نامزد تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود، عباد الرحمان عرف نعمان عرف عثمان، عبداللہ عرف صدام، فیض محمد، اکرام اللہ، نصراللہ، نادر عرف قاری اسماعیل پر مشتمل7ملزمان کو مسلسل عدم حاضری پر عدالت پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ عدالت نے گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں سنائے گئے فیصلے میں سعود عزیز اور خرم شہزاد کو شہادتیں ضائع کرنے اور تفتیش میں کوتاہی پر سزا سنائی گئی ہے جس پر دونوں پولیس افسران کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ مقدمہ کے ٹرائل کے دوران اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کے 7جج تبدیل ہوئے۔ 400 سے زائد تاریخ پیشیوں (تاریخ سماعت) کے دوران 8چالان عدالت میں پیش کئے گئے۔ 3 مرتبہ فرد جرم عائد کی گئی۔ دوران ٹرائل پراسیکیوشن کی جانب سے مقدمہ میں نامزد سابق صدر پرویز مشرف کی عدالت طلبی کے لئے بھی درخواست دائر کی گئی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کے دوران اب تک رانا نثار، پرویز علی شاہ، شاہد رفیق، چوہدری حبیب اللہ، طارق عباسی اور پرویز اسماعیل جوئیہ اور رائے ایوب خان مارتھ پر مشتمل 7جج تبدیل ہو چکے ہیں اور اب انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج اصغر خان نے آٹھویں جج کی حیثیت سے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے پرویز مشرف کا مقدمہ داخل کر دیا اور وطن واپسی پر ری اوپن اور ٹرائل ہو گا۔ علاوہ ازیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے میں بہت سارے لوگوں کو کلین چٹ دی گئی ہے اور عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ کن لوگوں کو کلین چٹ ملی ہے ،پیپلز پارٹی کی حکومت کبھی بھی بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں تھی، اگر یہ قتل بین الاقوامی سازش تھی تو میں سو فیصد یقین سے کہتی ہوں کہ اس کے سہولت کار پاکستان میں تھے۔ کیس کا فیصلہ سن کر بہت دھچکا لگا ہے، اتنی بڑی لیڈر کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اس پر اقوام متحدہ نے تحقیقات کی لیکن حیرانی سے کہنا پڑتا ہے کہ میں عینی شاہد ہوں مجھے کسی تحقیقاتی ٹیم یا عدالت نے بلایا تک نہیں۔ میں، صفدر عباسی اور مخدوم امین فہیم اس گاڑی میں موجود تھے لیکن کسی نے یہ بلا کر نہیں پوچھا کہ آپ نے کیا دیکھا، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اتنے اہم کیس کو کیسے چلایا گیا۔ دس سال لوگ قید رہے اور اب بری ہو گئے ہیں سوال یہ ہے کہ انہیں گرفتار کس نے کرایا تھا، یہ کیس سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ناہید خان نے کہاہے کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کے قتل کی تحقیقات کروائی ہی نہیں۔ بی بی سی کو انٹرویو میں ناہید خان نے بتایا کہ سکیورٹی خدشات کے باعث بینظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نکلنے سے متعدد بار منع کیا لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی ٗوہ عوامی لیڈر تھیں اور عوام کیلئے ہی جان دیدی ٗ وہ لیڈر تھیں ہم ان کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے تھے ٗ ان کو کئی بار سکیورٹی رسک کے بارے میں بتایا لیکن وہ ہمارے ساتھ جھگڑتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اس سے بہتر ہے کہ میں بھی سیاست چھوڑ دوں اور تم لوگ بھی چھوڑ دو ٗمیں یہ بزدلوں والی سیاست نہیں کر سکتی ٗوہ کہتی تھیں کہ میرے کارکن کیا سوچیں گے کہ ہماری لیڈر اتنی بزدل ہے کہ ہم باہر کھڑے ہیں صبح سے شام تک اور یہ ہمیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاتی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بے نظیر بھٹو قتل کیس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف عدالت سے مفرور و اشتہاری قرار پائے۔ یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔ بے نظیر قتل کیس میں بری ہونے والے 5افراد کو ایک ماہ نظر بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نظر بندی کے احکامات جیل حکام کو موصول ہو گئے۔ وزارت داخلہ پنجاب نے حکم دیا ہے کہ ملزموں کو اڈیالہ جیل میں رکھا جائے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ذرائع کے مطابق یہ رہائی امن عامہ کی صورتحال کے باعث التواء میں رکھی گئی ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امجد نے کہا ہے کہ انسداد دہشت کردی کی عدالت کا بے نظیر قتل کیس پر فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا، فیصلہ مقدمے کے چالان، شواہد اور بیانات کے برعکس ہے۔ فیصلے پر رعب، خوف یا مصلحت کا اثر نظر آتا ہے، اقبال جرم کے باوجود سہولت کاروں کو بری کر کے اصل منصوبہ سازوں کو عدالت سے دور کردیاگیا۔ قتل کے ذمہ داران قتل سے مستفید ہونے والے ہیں۔ پرویز مشرف صدر مملکت تھے، ضلعی سطح کے افسر کو احکامات نہیں دے سکتے تھے۔ پرویز مشرف پر بی بی کو سیکیوریٹی نہ دینے کا الزام بے بنیاد ہے۔ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے۔ سزا پانے والے سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز کو گزشتہ روز (بدھ کو) اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے گریڈ 20سے گریڈ 21میں ترقی دی گئی تھی۔

ای پیپر-دی نیشن