• news

بینظیر قتل‘ کیا دوسرا بمبار زندہ ہے؟ زرداری سمیت مرحومہ کے وارثان میں سے کوئی مقدمہ میں فریق نہیں بنا

اسلام آباد (بی بی سی اردو+آن لائن) بینظیر بھٹو کو قتل کرنے والا شخص ایک نوجوان سعید عرف بلال تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے لیاقت باغ میں بینظیر کی گاڑی کے قریب پہلے گولی چلائی اور اس کے فوراً بعد خود کو بم سے اڑا دیا۔ تاہم اس واقعے کی تحقیقات کرنے والوں کو یقین ہے کہ بینظیر کے قتل کیلئے ایک نہیں بلکہ دو خودکش حملہ آور بھیجے گئے تھے۔ اس دوسرے حملہ آور کا نام اکرام اللہ محسود بتایا گیا لیکن وہ زندہ ہے یا ہلاک ہوچکا ہے اس بارے میں خود تمام حکومتی تحقیقاتی ادارے واضح نہیں ہیں۔ پنجاب پولیس اور ایف آئی اے کی تحقیقات میں ایک فرق یہ بھی ہے۔ ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق بینظیر پر حملے کے وقت دو مختلف شدت کے دھماکے ہوئے جبکہ پنجاب پولیس کے خیال میں دھماکہ ایک ہی تھا جو بلال نے کیا تھا۔ ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں کے خیال میں اکرام اللہ دوسرا بمبار تھا جس نے لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب خود کو اڑایا تھا۔ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے سرکاری وکیل چوہدری اظہر کے مطابق دو دھماکوں کی تصدیق لیبارٹری رپورٹس سے بھی ہوتی ہے۔ چوہدری محمد اظہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کی چھان بین کے مطابق اکرام اللہ محسود ہلاک ہو چکا ہے۔ ان افراد کے اہل خانہ اور مقامی پولیٹکل انتظامیہ کی رپورٹس میرے پاس ہیں جن میں اکرام اللہ کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں میڈیا کو جاری کی گئی انتہائی مطلوب افراد کی ایک فہرست میں اکرام اللہ محسود کا نام بھی موجود ہے۔ 20 لاکھ انعام اس کی گرفتاری پر مقرر ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل کا مقدمہ ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں شوہر آصف علی زرداری سمیت مرحومہ کے وارثان کے علاوہ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے23 دیگر افراد کے لواحقین میں سے کوئی بھی مقدمہ کا فریق بنا نہ ہی کسی ایک تاریخ سماعت پر زرداری، ان کے بچوں یا پیپلز پارٹی کا کوئی سرکردہ رہنما عدالت میں آیا جبکہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی سابق پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان کی جانب سے2016ء میں مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست عدالت نے اس بنیاد پر مسترد کر دی تھی کہ اب فریق بننے کا وقت گزر چکا ہے۔ فیصلے کے روز بھی پارٹی کا کوئی فرد پیش نہیں ہوا۔

ای پیپر-دی نیشن