• news

.1محترمہ بینظیر کا قاتل بچ نکلا؟

لاہور (محمد دلاور چودھری) محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ تقریباً 10 برس بعد آ گیا ہے لیکن لیاقت علی خان، حیات شیر پائو، ڈاکٹر نذیر، ضیاء الحق، غلام حیدر وائیں، مرتضیٰ بھٹو، اکبر بگٹی اور دیگر اہم شخصیات کے کیسز کی طرح فیصلہ آنے کے باوجود بھی محترمہ کا کیس ابھی تک حل طلب دکھائی دیتا ہے۔ 2 پولیس افسروں کو سزا سنائی گئی جبکہ مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے اعتزاز شاہ سمیت گرفتار 5ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا ہے۔ اس طرح مشرف حکومت کے اس موقف کو ایک طرح سے تسلیم نہیں کیا گیا کہ قتل میں ٹی ٹی پی ملوث ہے حالانکہ اس وقت کے مشیر داخلہ بریگیڈئر (ر) چیمہ نے ایک آڈیو بھی میڈیا کے سامنے رکھی تھی جو ٹی ٹی پی ارکان کی بینظیر کے قتل کے حوالے سے گفتگو پر مبنی تھی۔ فیصلے میں مشرف کو اشتہاری قرار دیا گیا لیکن اس کی وجہ ان کا عدالت میں پیش نہ ہونا ہے۔خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے بعد ایک بات تو واضح ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو کم از کم ان دو پولیس افسروں نے قتل نہیں کیا جن کو سزا سنائی گئی ہے۔محترمہ کے قتل کے بعد ’’ہیرالڈو موناز‘‘ کی سربراہی میں اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کے لئے پاکستان آئی۔ اس ٹیم نے نامناسب سکیورٹی فراہم کرنے پر مشرف کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس ٹیم کو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت کی طرف سے ہی جن نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ٹیم کے سربراہ ہیرالڈو موناز نے کھل کر اپنی کتاب گیٹنگ اوے ود مرڈر (Getting away with murder) میں ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس وقت کے ایک اہم وزیر کا بھی ذکر کیا ہے جس نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ پاکستان میں ان کی سکیورٹی کو خدشات لاحق ہیں اس لئے ان کے لئے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ حاضر ہے اسے ہی بنیاد بنا لیں۔ محترمہ کے قتل کے بعد ان کے لابیئسٹ مارک سیگل کو ان کی ایک ای میل کا بھی بہت چرچا رہا جس میں محترمہ کی طرف سے 3 شخصیات سے ان کی زندگی کے لئے خطرہ ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن لگتا ہے فیصلہ کرتے ہوئے مشرف دور کی ٹی ٹی پی کی رپورٹ، اقوام متحدہ کی ٹیم اور ان کے سربراہ ہیرالڈو موناز کی لکھی گئی کتاب اور خود محترمہ کی ای میل کو بالکل ہی اہمیت نہیں دی گئی اور ویسا ہی ’’ٹیلر میڈ‘‘ قسم کا فیصلہ آ گیا ہے جو ہمیشہ اس ملک کا مقدر رہا ہے اور جس کے تحت اصل ملزم ہمیشہ کی طرح بچ جاتا ہے اور قربانی کے بکرے پھنس جاتے ہیں۔ ہیرالڈو موناز کی کتاب (Getting away with murder) کا اردو زبان میں ترجمہ ہوا تو اس کتاب کا نام ’’بینظیر کا قاتل بچ نکلا‘‘ رکھا گیا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کتاب کا اردو ترجمہ کرنے والا غالباً پہلے ہی سے فیصلے سے آگاہ تھا۔

ای پیپر-دی نیشن