کیا حکمرانوں کو صادق اور امین نہیں ہونا چاہیے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مریم نواز کی بجائے کلثوم نواز کو حلقہ 120 لاہور کے لیے امیدوار کیوں بنایا گیا۔ شریف سیاست کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے کہ نواز شریف کے بعد مریم نواز وزیراعظم ہوں گی۔ کلثوم نواز کو ایم این اے بنوایا جا رہا ہے جبکہ حمزہ شہباز پہلے ہی ایم این اے ہیں۔ انہیں کیوں وزیراعظم نہ بنایا گیا۔ شاہد خاقان عباسی عارضی وزیراعظم ہیں۔ وہ کلثوم نواز کے لیے عہدہ چھوڑ دیں گے۔ حمزہ شہباز شریف کو تو یہ کہا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
پہلے حلقہ 120 لاہور کی الیکشن کمپین کا نگران حمزہ شہباز کو بنایا گیا تھا۔ وہ لاہور کے کئی حلقوں کے لیے کامیاب نگرانی کر چکے ہیں۔ وہ اپنے لیڈر کے طور پر ہمیشہ نواز شریف کا نام لیتے ہیں۔ پھر پرویز ملک کا نام بھی سننے میں آیا تھا۔ اب مریم نواز نے بہت کچھ خود سنبھال لیا ہے۔ وہ کمپین تو ٹھیک ٹھاک چلا رہی ہیں۔ ان کی دو ایک تقریریں بھی میں نے سنی ہیں۔ وہ اچھا بول لیتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد اور دلکشی ہے۔ کلثوم نواز کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں۔ یاسمین سے میری ملاقات ہے۔ میری اہلیہ رفعت خانم ڈاکٹر یاسمین راشد کو بہت پسند کرتی ہے۔ انہوں نے پچھلی بار نواز شریف کے مقابلے میں بھی بہت ووٹ حاصل کیے تھے۔ کلثوم نواز اورئینٹل کالج میں مجھ سے ایک دو سال پیچھے تھیں۔ میں گورنمنٹ کالج کی طرف سے یہاں آتا تھا۔ میں نے بعد میں کئی ایم ایز میں داخلہ لیا تھا اور پنجاب یونیورسٹی کے ادبی رسالے کا مدیر اعلیٰ بھی رہا۔ جاوید ہاشمی انہی دنوں سٹوڈنٹس یونین کا صدر بنا تھا۔ تب یہ نعرہ یونیورسٹی کی فضائوں میں گونجتا تھا۔
ایک بہادر آدمی… ہاشمی ہاشمی
اس کے بعد قومی سیاست میں بھی جاوید ہاشمی نے ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ ن سے تحریک انصاف میں پناہ لی مگر وہاں بھی انہیں انصاف نہ ملا۔ اگر کلثوم نواز ان کے پاس ملتان چلی گئی ہوتیں تو میرا دل کہتا ہے کہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن نہ چھوڑتے مگر تحریک انصاف بھی انہوں نے چھوڑ دی۔
اب میری گزارش ہے کہ وہ ن لیگ دوبارہ جائن نہ کریں۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا تو پھر الیکشن نہ لڑتے۔ اس کے آگے ان کے لئے بہت مواقع تھے۔ وہ اسی آدمی سے ہار گئے جس سے پچھلی بار جیت گئے تھے۔
مجھے مولانا سمیع الحق کی طرف سے دعوت نامہ ملا ہے کہ اسلام آباد میں ہماری تقریب میں شرکت کرو۔ میں تو لاہور میں کئی تقریبات میں نہیں پہنچ سکتا‘ اسلام آباد کیسے پہنچوں گا۔ پہلے وہاں چودھری نثار سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ اب میں کس سے ملوں۔ وہ وزیر ہوں یا نہ ہوں مگر ہوں تو سہی۔ وہ سیاست سے اتنے بیزار ہوئے ہیں کہ اب اسلام آباد میں بھی ان کا ہونا بہت مشکل ہے۔ اب وہ زندگی کے بہت سے باقی دن چکری میں گزاریں گے؟ گوشہ نشینی کے لئے گوشۂ عافیت چاہیے ہوتا ہے۔
وہ وزیر بن سکتے تھے۔ کون ہے جو وزیر نہ بننا چاہے گا۔ یہ انوکھا آدمی ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے۔ مگر مجھے شکایت نوازشریف سے بھی ہے کہ انہوں نے چودھری صاحب کو وزیراعظم کیوں نہ بنایا۔
نوازشریف نے تو چودھری نثار کو وزیر خارجہ بھی نہ بنایا اور خواجہ آصف کو وزیر خارجہ بنا دیا۔ معذرت کے ساتھ خواجہ صاحب کسی طرح بھی وزیر خارجہ نظر نہیں آتے۔ وہ وزیر دفاع بھی نہیں لگتے تھے۔
ہمارے یہاں جس کو جی چاہے جیسا وزیر بنا دو۔ جیسے ہماری بیوروکریسی میں جس کو جی چاہے وہی بنا دو۔ سیکرٹری ایجوکیشن کو سیکرٹری داخلہ اور پھر سیکرٹری خزانہ لگا دیں ان کا نام فائل پر دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ اس میں بھی وہ کئی مہینے لگا دیتے ہیں۔ دفتری معاملات میں کوئی اور کام کرتا ہے۔ ان لوگوں کو کام نہ کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ اختیار بھی اقتدار بھی پروٹوکول بھی سکیورٹی بھی شان و شوکت بھی حکومت بھی رعونت بھی۔ افسری بھی حکمرانی بھی میں نے ایک بار بیوروکریسی کے لئے براکریسی کا لفظ استعمال کیا تھا جو بہت معروف ہوا۔ سیاستدانوں حکمرانوں نے بھی بہت کچھ اس ملک کا حشر کیا ہے۔ ساری کسر افسروں نے نکال دی۔ حکمران افسر نہیں ہوتے افسران حکمران بھی ہوتے۔
مولانا سمیع الحق نے آئین کی دفعہ 62-63 کو موضوع بنایا ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ 62-63 کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ یہ معاملہ اتنے شور شرابے کا موجب بنا ہے کہ اب سیاستدان تھک گئے ہیں۔
62-63 کے آئین سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کو صادق اور امین نہیں ہونا چاہئے؟