افغانستان سے تربیت لی‘ خود کو منوانے کیلئے پولیس اہلکار مارے سربراہ انصار الشریعہ
کراچی (آن لائن+ نوائے وقت نیوز) خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کی تفتیش میں نیا موڑ آگیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں گرفتار ملزم ڈاکٹر شہریار عبداللہ ہاشمی کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ انصارالشریعہ پاکستان کا چیف ہے۔ ملزم این ای ڈی یونیورسٹی کا ملازم اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فزکس سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرچکا ہے۔ شہریار عبداللہ ہاشمی سمیت 6 ملزموں کو فورسز نے پیر کے روز کنیز فاطمہ سوسائٹی میں کارروائی کے دوران حراست میں لیا تھا۔ ڈاکٹر شہریار عبداللہ ہاشمی نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ 2015ء کے آخر میں انصار الشریعہ تنظیم کا آغاز ہوا۔ القاعدہ سے الحاق کیلئے عبداللہ بلوچ سے رابطہ کیا گیا تھا مگر اس نے اپنی مدد آپکے تحت کام کرنے کو کہا۔ ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی میں اپنے آپکو منوانے کیلئے پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ 10 سے 12 کارندوں پر مشتمل گروپ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے شامل ہیں۔ تمام لڑکے کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اور دائود یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں جنہوں نے افغانستان کے علاقے شراوک سے عسکری تربیت لی۔ عبداللہ ہاشمی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ 27 سالہ ہلاک ملزم حسان عرف ولید گلزار ہجری کا رہائشی اور الیکٹرانک انجینئر اور پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ وہ دائود یونیورسٹی میں الیکٹرانک سائنس کا ٹیچر تھا جسے 45 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔ وہ آدھی تنخواہ گھر اور آدھی تنظیم کو دیتا تھا۔ حسان کے والد پروفیسر اور والدہ ڈاکٹر ہیں۔ ملزموں نے گلبرگ پولیس اور عزیز بھٹی چوکی پر حملے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ علاوہ ازیں خواجہ اظہار پر حملے میں مارے جانے والے دہشت گرد حسان کے اہل خانہ کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا ہے جس کے مطابق حسان کے روئیے میں پچھلے ایک سال سے تبدیلی آنا شروع ہوئی تھی۔ کنیز فاطمہ سوسائٹی میں حسان کے 2 یا 3 دوست رہتے تھے، وہ ان ہی کے ساتھ رہتا تھا۔ حسان کا چچا پولیس افسر ہے‘ اس سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق انصار الشریعہ کے پمفلٹ کی تیاری میں استعمال ہونے والا لیپ ٹاپ برآمد کرلیا گیا ہے۔ وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر اجمل نے بتایا کہ ملزم سروش کے معاملے نے بات بہت بڑھا دی ہے‘ مشورے سے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ جامعہ کراچی میں جعلی اسناد جمع کرا کے داخلوں کی شکایت بڑھ رہی ہیں۔کراچی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے انصار الشریعہ کی پشت پناہی کرنے والی دہشت گرد تنظیموں القاعدہ برصغیر، تحریک طالبان اورداعش کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر نیست ونابود کرنے کا بڑا چیلنج ہنوز برقرار ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تنظیم انصار الشریعہ کا نام رواں سال کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سامنے آیا تھا۔ سنسنی خیز انکشافات کے بعد سی ٹی ڈی پولیس کے سینئر افسروں کا ایک اجلاس بھی ہوا جس میں اب تک کی تفتیش کا جائزہ لیا گیا اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کیلئے دیگر تحقیقاتی اداروں کی مدد سے مربوط حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئٹہ اور پشین میں کارروائی کرکے انصار الشریعہ سے تعلق رکھنے کے شبے میں 2افراد کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق زیرحراست افراد کالعدم انصار الشریعہ کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ پروفیسر مشتاق جامعہ کراچی میں پڑھاتے تھے۔ مفتی حبیب کے کراچی اور حیدر آباد میں مدارس ہیں۔