• news
  • image

جنگ ستمبر 65ءاور غزوہ ہند

6 ستمبر کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں برادرم شاہد رشید اور ان کی ٹیم نے ایک تقریب منعقد کی۔ میرا خیال ہے کہ پاک فوج نے بہت موثر تقریبات کیں۔ اپنے شہداءکو بھی یاد کیا۔ جو شہید ہوتے ہیں وہ موت کو بھی شکست دیتے ہیں۔ مر کر بھی زندہ تر ہوتے ہیں کہ زندہ جاوید ہو جاتے ہیں۔ ٹرسٹ کی یہ تقریب بھی بہت شاندار تھی۔
میں نے گفتگو کرتے ہوئے غزوہ ہند کا ذکر کیا تو راشد حجازی نے مجھے کہا کہ آپ نے یہ بہت اہم بات کی۔ آپ غزوہ¿ ہند کے پیغام کو عام کریں۔
غزوہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں آقا و مولا رسول کریم رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ بذات خود بنفس نفیس شرکت فرماتے ہیں۔ غزوہ ہند میں جب مسلمان باطل قوتوں سے ٹکرائیں گے تو انہیں براہ راست حضور کی قیادت نصیب ہو گی۔ حضور کی شرکت کی کیا صورت ہو گی یہ ہمیں نہیں پتہ مگر اتنا یقین ہے کہ حضور کی شرکت ہو گی ضرور۔ آپ نے اس جنگ کو غزوہ کا نام دیا۔ اور غزوہ وہ لڑائی ہے جس میں آپ خود شریک ہوں۔
غزوہ ہند ہو گی تو اس میں لڑنے والے فریق کون کون ہوں گے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے ایک طرف حق پرست لوگ ہوں گے اور دوسری باطل قوتیں ہوں گی۔ کیا یہ جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو گی، تو ان مسلمانوں کا کیا کردار ہو گا جو بھارت میں ہیں۔ بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے مسلمانوں کا بھی کوئی رول ہو گا کہ نہیں؟
اس میں حضور کی شرکت کا ذکر ہے تو عالم عرب یعنی عالم اسلام بھی شریک ہو گا۔ یہ ایک بڑی لڑائی ہو گی تو پھر مقابلے میں کون کون سی غیرمسلم قوتیں ہوں گی۔ اسرائیل کا رول بھی ہو گا؟
میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کا قیام ایک بہت بڑا اشارہ ہے۔ محسن انسانیت پیغمبر اعظم و آخر رسول کریم حضرت محمدﷺ نے انگشت شہادت سے ہندوستان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ”مجھے ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔“ یہ اشارہ ایسے خطے کی طرف تھا جو مسلمانوں کا ہو گا۔ وہ پاکستان کے علاوہ کون سا علاقہ ہو سکتا ہے؟ میں اس لیے پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہتا ہوں۔ روحانی دانشور واصف علی واصف نے کہا کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے۔
جنگ ستمبر کیا غزوہ¿ ہند کے لیے کوئی اشارہ ہے۔ یہ جنگ پاکستانیوں نے جس جذبے اور جرات سے یقین اور ایمان سے جس ولولے اور عزم صمیم سے لڑی اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام اور افواج پاکستان شانہ بشانہ تھے۔ چھتوں پر چڑھ کر طیاروں کی لڑائی اس طرح دیکھتے اور نعرہ¿ تکبیر لگاتے تھے۔ اپنے جانبازوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے جیسے پتنگ بازی کے مقابلے میں اپنے لوگوں کو سپورٹ کر رہے ہوں۔
میرا خیال ہے کہ یوم ستمبر کے لیے ”یوم دفاع پاکستان“ کی اصطلاح ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ”یوم جہاد پاکستان“ ہے اور یوم فتح پاکستان ہے۔ ہم اپنے ملک اور دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ہر دشمن ملک کو بھی دفاع پر مجبور کر دیں گے اور ہم نے جنگ ستمبر میں دشمن کے کئی شہروں پر قبضہ کیا تھا اور انہیں کئی میل پیچھے دھکیل دیا تھا۔
صدر جنرل ضیاالحق نے دہلی ائر پورٹ پر راجیو گاندھی سے کہا تھا کہ ہم خدانخواستہ ختم ہو گئے تو کئی مسلمان ملک موجود ہیں۔ اگر بھارت ختم ہوا تو دنیا کے نقشے پر کوئی ہندو ریاست نہ رہے گی۔ جنگ ستمبر میں ہمارے بہادر سپوتوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور بم نعرہ¿ تکبیر ہے۔ یہ نعرہ مسلمانوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے اور ہندو اس نعرے سے اتنا ڈرتے ہیں جتنا موت سے نہیں ڈرتے۔
شاید اتنی شاندار تقریب پورے شہر میں اور کہیں نہیں ہوئی ہو گی جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوئی۔ اس کے لیے ناہید، سیف، عثمان اور دوسرے دوستوں کی مکمل معاونت شاہد رشید کو حاصل تھی۔ صدارت اپنے بڑھاپے کی طرح شاندار انسان صدر رفیق تارڑ نے کی۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ یہ قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتی ہے۔ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر رفیق احمد، ایس ایم ظفر، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، رانا محمد ارشد، محمد اکرم چودھری اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ محترمہ مہناز رفیع، ڈاکٹر پروین خان، بیگم خالدہ جمیل، یٰسین وٹو، راشد حجازی اور کئی خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ پروگرام کی نظامت شاہد رشید نے کی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن