• news
  • image

بابائے قوم میں آپ سے مخاطب ہوں

ریاض احمد
قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح صرف تیرہ ماہ ہمارے ساتھ رہے۔ اس مختصر مدت میں بھی وہ آخر دم تک اس نئی مملکت کو مضبوط کرنے اور دشمن کی کھلم کھلا مخالفتوں اور ان کی کارستانیوں کو ختم کرنے میں لگے رہے۔ اگرچہ اپنے آخری ایام میں قائداعظم ایک مہلک اور موذی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کمزور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ لیکن ان کے ارادہ میں کوئی کمی نہ آئی اور وہ اس پر تلے ہوئے تھے کہ اپنی بچی کھچی قوت اور خون کا آخری قطرہ بھی پاکستان کی خدمت اور آئندہ فلاح و بہبود پر صرف کر دیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آخری وقت میں بھی ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں سے خطاب کیا۔
موجودہ نسل قائداعظم کے اس ولولہ انگیز پیغام کو کبھی بھلا نہیں سکتی جس نے پوری قوم کو متحد کرکے اس میں بیداری کی روح پھونک دی۔ ایک ملک بنایا، ایک مملکت کی بنیاد ڈالی۔ آیئے اب اپنے قائد کے خیالات سے نصیحت حاصل کیجئے۔جو آج بھی ہم سے مخاطب ہیں۔
میرے نوجوان دوستو! میں آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ پاکستان کو بنانے اور سنوارنے والے ثابت ہوں گے ۔ آپ اس کا خیال رکھیں کہ لوگ آپ سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں اور آپ کو گمراہ نہ کریں۔ آپس میں امن و شانتی ، اتحاد و اتفاق پیدا کیجئے اور ایک مثال قائم کر دکھایئے کہ نوجوان کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
جب ہم آزادی اور خود اختیاری کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران ہم حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے تھے جو ایک غیر ملکی حکومت تھی جسے بدل کر ہم اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے، مگر یاد رکھئے اب ایک انقلابی تبدیلی آ چکی ہے۔ اب یہ ہماری اپنی حکومت ہے اب ہم نے ایک آزاد، خود مختار اور حاکم مملکت بنا ملی ہے۔ اب ہم کسی غیر ملکی اقتدار کے ہاتھوں مجبور اور لاچار نہیں ہیں۔ ہم نے وہ زنجیریں توڑ ڈالی ہیں اور بیڑیاں اتار پھینکی ہیں۔
ہم جس قدر جلد خود کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیں اور جس قدر جلد ہمارے خیال کی نظریں افق کے پاران لامحدود ترقی کے امکانات کو دیکھ سکیں جو ہماری قوم اور ملک کیلئے موجود ہیں اتنا ہی پاکستان کے حق میں اچھا ہوگا اور صرف اسی صورت میں ہمارے لئے ممکن ہوگا کہ ہم انسانی ترقی، سماجی انصاف، مساوات اور اخوت کے اصولوں کو عمل میں لا سکیں۔یاد رکھئے کہ پاکستان کا وجود میں آنا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ سب سے بڑے مسلم ممالک میں سے ایک ہے اور اسے آئندہ سالوں میں ہر قدم پر شاندار کارنامے سرانجام دینے ہیں۔ مگر شرط یہی ہے کہ پوری دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔
یہ سب سے بڑی اسلامی مملکت 14اگست 1947ءکو وجود میں آئی۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا دن تھا۔ لیکن اس دن صرف ایک حکومت ہی قائم نہیں ہوئی بلکہ ایک بڑی مملکت اور ایک بڑی قوم بھی پیدا ہوئی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم ہیں اور دونوں مل کر ہی مکمل ہوتے ہیں۔
آزادی کے معنی بہرحال کھلی چھوٹ کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو روش آپ چاہیں اختیار کریں اور دوسرے ساتھیوں کا لحاظ یا اپنے ملک کے مفاد کا کوئی خیال کئے بغیر جو چاہئیں کریں۔ آپ پر ایک زبردست ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس وقت ہمیں پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ ایک متحد اور منظم قوم کی طرح مل جل کر کام کریں۔
آپ کی حکومت کی مثال آپ کے باغ کی سی ہے۔ آپ کا باغ اتنا ہی پھلے پھولے گا جیسی دیکھ بھال یا کوشش آپ اس کیلئے کریں گے۔ غیر ملکی اقتدار ختم ہو جانے کے بعد لوگ اب اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا خود ہی اختیار رکھتے ہیں ۔انہیں پوری آزادی حاصل ہے کہ آئینی طور پر جس قسم کی حکومت چاہیں اپنے لئے بنائیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غیر آئینی طور پر کوئی گروہ یا طبقہ حکومت وقت پر جس کی تشکیل عوام کی رضا مندی سے ہوئی ہے اپنی مرضی یا منشا کو مسلط کر دے۔ حکومت اور اس کی پالیسی منتخب نمائندوں کی رائے سے بدلی جا سکتی ہے لیکن کوئی حکومت بھی غیر ذمہ دار اور ناعاقبت اندیش لوگوں کی ہلڑ بازی اور غنڈہ گردی کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔
بدقسمتی سے آپ کے یہاں غدار بھی موجود ہیں اور مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے ۔ ان غداروں کی پرورش باہر کے ادارے اور باہر کے لوگ کرتے ہیں، جن کا مقصد انتشار پیدا کرنا ہے۔ کچھ لوگ آپس کے اختلاف کو ہوا دینے میں آگے آگے ہیں اور اگر ہمارے عوام یہ بات محسوس نہ کر لیتے تو یہ لوگ کسی نازک موقع پر پاکستان کی بنیادیں ہی ہلا دیتے۔ ان کا مقصد پاکستان کو توڑ پھوڑ دینا اور برباد کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ چوکنے اور ہوشیار رہیں تاکہ آپ پھنس نہ جائیں۔
ہم سب پاکستانی ہیں ہم میں سے کوئی شخص پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان یا بنگال نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا، محسوس کرنا ، عمل کرنا چاہئے اور صرف پاکستانی ہونے پر ہی ہم سب کو فخر کرنا چاہئے۔
الحمد للہ! ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول ﷺ کی تعلیمات پر چلتے ہیں ہم سب اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ حقوق عزت اور مرتبے میں سب برابر ہیں۔ نتیجے میں ہمارے اندر اتحاد کا ایک خاص اور گہرا احساس پایا جاتا ہے نہ صرف ہم میں سے اکثر مسلمان ہیں بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے۔ ریتیں اور رسمیں ہیں اور احساس و شعور ہے ۔ ہمارے سوچنے سمجھنے کے طریقے ہیں۔ ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے ۔ یہ سب مل کر ہمارے اندر قومیت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب پر یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو مل کر ایک قوم ہی ہونا چاہئے۔
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں۔ اسے جن الفاظ میں چاہئے کہا جائے مگر میری درخواست کا لب لباب یہ ہے۔ آپ قدم اٹھانے سے پہلے سوچیں اور غور کریں کہ آیا آپ یہ قدم کسی ذاتی یا علاقائی پسند نا پسند کی بنیاد پر اٹھا رہے ہیں یا اس سے ملک کا مفاد وابستہ ہے۔ اگر ہر شخص اسی طرح اپنا جائزہ لیتا رہے اور خود بھی دیانتداری برتے اور بلا خوف رعایت دوسروں کو بھی دیانتداری برتنے پر مجبور کرے تو مجھے مستقبل نہایت تابناک نظر آتا ہے۔ اگر سرکاری اور غیر سرکاری سب ہی لوگ اسی جذبے اور اسی انداز سے کام کریں تو تمام ملک پر اس کا نقش قائم ہوگا اور پاکستان فخر و کامیابی کے ساتھ دنیا کے عظیم ملک کی حیثیت سے ابھرے گا۔میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے اب اس کی تعمیر آپ کا کام ہے۔ اسے جلد سے جلد اور بہتر سے بہتر بنایئے۔اٹھو شاہینوں! آگے بڑھو، خدا آپ کو کامیابی دے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن