اسلام آباد: ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اہلکار کیخلاف این ایچ ایس میں شکایتی مراسلہ ارسال
اسلام آباد (قاضی بلال) کابینہ ڈویژن نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی(ڈریپ) کے ایک آفیسر کے خلاف وزارت صحت (این ایچ ایس) کو ایک شکایتی مراسلہ ارسال کر دیا ہے جنہوں نے 2001ء میں خود کو ’’مرحوم ‘‘ قرار دے دیا تھا کہ کرپشن کیسز میں تفتیش سے بچا جا سکے۔ موجودہ افسر اس وقت بھی ڈریپ میں اہم عہدوں پرکام کر رہا ہے۔ ارسال شدہ شکایت میں کہا گیا کہ مذکورہ آفیسر زندہ ہے اور ڈریپ میں تین اہم عہدوں پر کام کر رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے نے بھی معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس سے پہلے لاہور کے ایک شہری ظہیر افضل نے بھی ایک خط اسی قسم کا وزیراعظم معائنہ کمشن کو اسی طرح خط لکھا ہے اور اس افسر کی خلاف ڈریپ اور وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب وزارت قومی صحت خدمات کے جوائنٹ سیکرٹری (ایڈمن) سید معظم علی نے تصدیق کی ہے کہ خط کابینہ ڈویژن سے مل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انکوائری کمیٹی تشکیل پائی ہے تو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ڈریپ کی رائے لی جائے گی۔ ایک اور فارما سیوٹیکل کمپنی کے مالک سمیع اللہ خان درانی نے اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ شیخ اختر حسین اپنے چار دیگر ساتھی سرکاری عہدیداروں کے ہمراہ مالیاتی غبن اور کرپشن میں ملوث تھے اور نیب نے 2001ء میں اور 2004ء میں ان کے خلاف ریفرنسسز دائر کئے تھے اس شکایت کی نقول سپریم کورٹ اور دیگر دفاتر میں بھی بھیجی گئی ہیں اور اس میںکہا گیا کہ دیگر چار عہدیداروں نے اپنی سزائیں مکمل کر لی ہیں تاہم شیخ اختر نے خود کو ’’مرحوم‘‘ قرار دیا جس کے بعد ان کے خلاف کیس بند کر دیا گیا۔ نیب کے 2004ء کے ریفرنس کے مطابق شیخ اختر کے خلاف 51 ملین روپے کی خرد برد کا الزام تھا اور اس ریفرنس پر اس کے وقت کے نیب چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) منیر حفیظ نے دستخط کئے تھے۔ 2011ء کے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ شیخ اختر پر ایک ملین روپے کی خرد برد کا الزام ہے تاہم دونوں ریفرنسز میں اختر کو ’’مرحوم ‘‘ قرار دیا گیا جیسا کہ دستور ہے کہ مردہ اشخاص کے خلاف کوئی کیسز جاری نہیں رکھے جا سکے۔ نیب کو بھی شکایت وصول ہو چکی ہے اور انچارج نیب راولپنڈی سیل کے مطابق شکایت کو آئی ڈی نمبر دے دیا گیا ہے ۔