میں اپنے دل میں رہتا ہوں اور چودھری نثار
چودھری نثار کے لیے سابق وزیرداخلہ لکھنا بڑی زیادتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انہیں وزیر داخلہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ وزیر شذیر ہونا ان کی شخصیت سے بہت کم ہے۔ صرف چودھری نثار کہا جائے تو بات بہت واضح ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو آدمی وزیر ہے وہ اپنی شخصیت میں کیا ہے؟ وزیر ہونے کے علاوہ اس کی شخصیت کیا ہے۔
چودھری نثار آج کل وزیر نہیں مگر کیاکسی وزیر کی اتنی اہمیت ہے جو چودھری صاحب کی ہے۔ وہ دبنگ آدمی ہیں۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کہ وہ دلیر آدمی ہیں۔ سچے آدمی ہیں۔ منہ پر بات کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ان میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو محبت اور عزت کے قابل شخص میں ہوتی ہیں۔ وہ لالچ اور خوف سے بالاتر ہیں۔ مجھے ایسے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ مجھے بھی میرے اللہ نے خوف اور لالچ سے بے نیاز کیا ہوا ہے۔
میں نے زندگی میں ایسا وزیر نہیں دیکھا۔ میں چودھری صاحب سے صرف ایک بار برادرم نواز رضا کے ساتھ ملا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر سرسری سی ملاقات اور ہوئی ہے۔ دو ایک بار انہوں نے میرے ساتھ فون پر بہت مختصر بات کی۔ میں اسلام آباد جاﺅں تو کسی کے ساتھ ملنے کی اتنی خواہش نہیں ہوتی۔ مگر میرا دل ہوتا ہے کہ چودھری نثار سے ملوں۔ ان سے ملنا بہت مشکل ہے۔ میں مشکلوں میں زندہ رہنا پسند کرتا ہوں مگر یہ مشکل میرے لیے بڑی مشکل ہوتی ہے کہ کسی کے ساتھ ملنے کا اہتمام کروں۔ میرے دل میں ملنے کے اور کئی سلیقے ہیں۔ میں اس لیے آسانی میں رہتا ہوں۔ مجھے لندن سے ایک بہت معزز خاتون ملنے آئیں۔ جب گاڑی ڈرائیور کرنے والا وحدت روڈ پر آیا تو خاتون محترم نے کہا کہ میں نے اجمل نیازی سے ملنے کو کہا ہے اور تم کہاں جا رہے ہوں۔ ڈرائیور نے کہا کہ وہ اس بستی میں رہتے ہیں۔
وہ خاتون میرے گھر کے بیٹھک نما کمرے میں بڑی بیزار ہو کے بیٹھ گئی۔ اسے یہ صاف ستھرا کمرہ میلا کچیلا لگا۔ اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ آپ یہاں رہتے ہو۔ میں نے جواب دیا نہیں۔ میں یہاں نہیں رہتا۔ وہ تقریباً بدحواس ہو کے بولی تو پھر کہاں رہتے ہو ۔میں نے کہا
میں اپنے دل میں رہتا ہوں
وہ کچھ اور پریشان ہوئی۔ میں آپ کی آسانی کے لیے بتا دوں کہ میں پچھلے چونتیس سال سے اس دس مرلے کے سرکاری کوارٹر میں رہتا ہوں میں یہاں 20 گریڈ میں ریٹائر ہوا۔ اب یہ گھر میرے بیٹے کے نام ہے۔ وہ بھی اٹھارویں گریڈ میں ہے۔ اور چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہے۔
ایک بار بہت محترم اور معزز ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ مجید نظامی میرے گھر تشریف لائیں۔ میں نے ان کو چائے کی آفر کی مگر انہوں نے یہ سعادت مجھے نہ بخشی۔
٭٭٭٭٭
ہمارے ایک بزرگ دوست اے جی جوش تھے۔ ہم انہیں جوش ملیح آبادی کے مقابلے میں لاہوری جوش کہتے تھے۔ بہت مہربان آدمی تھے۔ میرے ساتھ ان کی محبت بہت بلند بالا تھی۔ جب مجھے حکومت کی طرف پروفیسری سے معطل کر دیا گیا تو پہلے جو شخص میرے گھر میں پہنچا وہ جوش صاحب تھے۔ ان کے پاس بہت سے پیسے بھی تھے۔ انہوں نے کہا تمہاری تنخواہ بند ہو گئی ہو گی۔ یہ کچھ روپے ہیں اور اس کے علاوہ بھی کوئی خدمت ہو تو حاضر ہوں۔ یہ کوئی اپنا بزرگ ہی کر سکتا ہے اور وہ واقعی میرے بزرگ دوست تھے۔ میں نے اتنا مہربان اتنا سخی اور اتنا دل والا آدمی نہیں دیکھا۔ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا میرا اللہ مالک ہے۔
انہوں نے ادبی دنیا سے ایک مکمل دوستانہ رابطے کے لیے ایک رسالہ نکالا جس کا نام ہی ادب دوست رکھا۔ یہ سچ ہے کہ ان کے جیسا کوئی ادیب دوست نہ تھا۔ ”ادب دوست“ ان کی زندگی میں ہی ایک مقبول ادبی رسالہ بن گیا۔ ان کی طرف سے بڑی دعوتیں اور فنکشن ہوتے تھے۔
مجھے خوشی ہے کہ ان کے بعد بھی ان کے قابل قدر صاحبزادے خالد تاج نے یہ گراں قدر سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہیں ایک بہت اچھے ادیب اور سرگرم شخصیت ڈاکٹر اقبال سعدی کی مکمل معاونت حاصل ہے۔ خالد تاج مدیر اعلیٰ ہیں اور مدیر مسﺅل ڈاکٹر سعید اقبال سعدی ہیں۔ ر سالہ بڑی باقاعدگی سے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ادبی رسالہ ”بیاض“ ہے جو عمران منظور شائع کرتے ہیں۔ نعمان منظور اعجاز رضوی اور جاوید احمد کی معاونت حاصل ہے۔
ہم خالد تاج کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اے جی جوش کی یاد کو تازہ رکھا ہے۔ عمران منظور بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ اس طرح نامور شاعر اور دانشور برادرم خالد احمد کی یادوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان کے لیے کئی انعامات کا معاملہ بھی ہے جو ہر سال خالد احمد کے ساتھ ادبی نسبتوں کے حوالے سے دوستوں کو دیے جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭