• news

فوج نے اپنا کام مکمل کر لیا، حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے: ارکان سینٹ

اسلام آباد ( نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) ایوان بالا میں مختلف جماعتوں کے سینیٹرز نے کہاہے ملک میں دہشت گردی کی جڑیں تعلیمی اداروں میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں، جو لمحہ فکریہ ہیں، ریاستی پالیسی کےلئے قائداعظم کے مائنڈ سیٹ کو لے کر قومی بیانیہ اپنانا ہو گا، نیشنل ایکشن پلان کی جزئیات پر عمل درآمد نہیں ہورہا، حساس ادارے سرحدوں پر آپریشن کر رہے ہیں، جہاں امن و امان ہوا جبکہ شہروں میں دہشت گردوں کے وسیع نیٹ ورک ہیں جنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے، عسکریت پسندی کے خاتمے کےلئے متبادل بیانیے کی ضرورت ہے، یہ جنگ اسلحے کی نہیں بلکہ ذہنوں کی جنگ ہے، جس کےلئے بندوق و بارود سے مدد نہیں لی جا سکتی، فوجی سازوسامان کے ساتھ ہم نے اسلحہ کے ساتھ آپریشن ضرب عضب، ردالفساد اور آپریشن خیبر فور پر توجہ دی لیکن بیانیے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، دہشت گردی اور انتہاءپسندی نے پولیس لائن ، شاہ نورانی، مستونگ پر حملے کرائے،لوگ امن چاہتے ہیں لیکن دوسروں پر سوچ مسلط کرنے کی جنگ کے خلاف نبردآزما ہونا پڑے گا، اے پی سی میں 20نکاتی پلان ترتیب دیا گیا تھا، فوج نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا لیکن حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ضیاءالحق نے 80 کی دہائی میں کلچر،ادب، میانہ روی کے درخت کو کاٹ کر نفرتوں کے بیج بوئے جو آج جنگ بن چکے ہیں۔ وہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے عسکریت پسندی کے خاتمے کےلئے متبادل بیانیے، نیشنل ایکشن پلان تیاری اور پیش رفت کے حوالے سے جمع کرائی گئی تحریک پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ تحریک کے محرک سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عسکریت پسندی کے خاتمے کےلئے متبادل بیانیہ ذہنوں کی جنگ ہے۔ ماضی میں ہماری فوج ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگاتی رہی، 80 کی دہائی میں ”ب“ سے بندوق،”ت“ سے تلوار اور ”ک“ سے کافر پڑھایا جاتا رہا، اس کے حل کےلئے کمیٹی آف ہول کا اجلاس بلا کر بحث کی جائے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا انتہاءپسندی فروغ پا رہی ہے۔ خضدار میں بندوں کو کہا جا رہا ہے کہ یا تو بھتہ دو ورنہ موت قبول کرلو جبکہ بی این پی کے کارکنوں کو کہا جا رہا ہے کہ یا پارٹی چھوڑ دو یا موت قبول کرلو، ان سب کےلئے ہول کمیٹی میں ڈسکس کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے میاں عتیق شیخ کے مطابق حکومت کی جانب سے نیکٹا فعال ہوا نہ بجٹ رکھا گیا، کیونکہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ساجد میر نے کہا کوئی ملک مکمل دہشت گردی پر قابو پانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ قومی بیانیے کی سخت ضرورت ہے۔ شبلی فراز نے کہا 80کی دہائی میں ضیاءالحق نے امن، رواداری کے درخت کاٹ کر نفرتوں کے بیج بوئے جو جنگل بن گئے، ہم اقبال پر آ کر پھنس گئے، اس سے آگے بڑھنا ہو گا، فیض ،منٹو، فراز، جالب،عالی بھی ملک کا چہرہ ہیں، اس کے بغیر ملک مکمل نہیں ہو سکتا۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دہشت گردی میں کمی آئی ہے، ہر چیز کو پہلے مدرسوں سے جوڑا جاتا تھا اب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بچے بھی اس میں ملوث ہیں، حکومت کے تمام اداروں کو مل کر قومی بیانیہ پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ قومی بیانیے کی بنیاد کلمہ توحید پر ہونی چاہیے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا ریاستی پالیسی کےلئے قائد اعظم کے مائنڈ سیٹ کو لے کر قومی بیانیہ لیکر چلنا ہوگا۔ آن لائن کے مطابق مردم شماری پر تحفظات کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن نے سینٹ اجلاس میں علامتی واک آﺅٹ کیا۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق سینٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی (ہول کمیٹی) کا اجلاس آج منگل کو ہوگا۔ کمیٹی میں وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے، فاٹا اصلاحات کیلئے قائم حکومتی کمیٹی کی رپورٹ پر غور کیا جائیگا۔ اجلاس میں فاٹا اصلاحات کیلئے سفارشات بھی تیار کی جائیں گی۔ اے پی پی کے مطابق ایوان بالا نے سینیٹر سراج الحق کا تعزیرات پاکستان کے بل میں مزید ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال احمد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی داخلہ سلامتی پالیسی پہلی مرتبہ بنی، ہم نہیں چاہتے کہ قومی بیانیہ صرف حکومت بنائے‘ اتفاق رائے سے بیانیہ بنانے کیلئے علماءسمیت تمام سٹیک ہولڈرز اور سینٹ کی تجاویز کو شامل کریں گے‘ ہمیں کسی کے کہنے کی بجائے اپنے آپ اور اپنے گھر کیلئے قومی بیانیہ بنانا ہوگا۔ ایوان بالا میں عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے متبادل بیانیے کی تشکیل کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو بیانیے دو آمروں نے اپنے اقتدار کو بڑھانے کیلئے بنائے‘ جہاد کی تعریف ہو یا اچھے برے طالبان ہوں یہ اسی دور میں ہوا۔ قومی ایکشن پلان اتفاق رائے سے بنایا گیا اس کے 20 نکات میں سے اکثریت صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹرز نے دہشت گردی کے واقعات میں طلبہ کے ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا۔

ای پیپر-دی نیشن