• news
  • image

گجرات اور بو رے والا کا نظمیہ خاندان

گجرات کا نظمیہ اور ہاشمیہ خاندان مشہور ہے۔ اس خاندان کے سربراہ سید محمد احمد شاہ ہاشمی ہیں۔ ان کی اولاد شعر و ادب اور صحافت سے وابستہ ہے۔ بعض افراد گجرات سے بورے والا شفٹ ہو گئے جن میں سید ناصر ہاشمی شامل ہیں۔ پروفیسر سید مسعود ہاشمی (مرحوم) گجرات ہی میں مقیم رہے اور وہیں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ سید فیصل ہاشمی، نظم کے معروف شاعر ہیں۔ طویل عرصے سے ناروے میں مقیم ہیں۔ ان کی بہن سیدہ مسرت ہاشمی بھی طویل عرصے سے ناروے ہی میں رہائش پذیر ہیں۔ مسرت ہاشمی کی نثر میں کتاب شائع ہو چکی ہے۔ سید ناصر ہاشمی کی کتاب ’’گجرات کا نظمیہ خاندان اور مولوی غلام قادر ہاشمی‘‘ شائع ہوئی جس میں اس خاندان کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ سید ناصر ہاشمی اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور نثر نگار ہیں۔ ان کی شاعری کے بنیادی موضوع تصوف اور پیار محبت ہیں۔ وہ اپنی شاعر ی میں دل کی باتیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کے نام ’’دل دا شہر‘‘ اور ’’کس سے دل کی باتیں کرتے‘‘ ہیں۔ انہوں نے ’’سلوک طریقت‘‘ پر کتاب مرتب کی اور میاں محمد بخش کے منتخب اشعار کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو کتابی صورت میں ’’منزلِ سلوک‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید ناصر ہاشمی کو صوفی شاعروں سے بے پناہ محبت ہے۔ وہ مجلس بابا فرید بورے والا کے صدر ہیں۔ ان کے نزدیک محبت و مودت اور پیار انسانی فطرت کا اہم رکن ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہو تو بچے بھی پروان نہ چڑھیں۔ ربوبیت اور انسیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اورتصوف ہی ایک ایسا مکتب ہے جو انسان کو تحریک دیتا ہے کہ اپنی محبت اور مودت کا مرکز اس ہستی کو بنایا جائے جسے نہ فنا ہے نہ زوال، جو قدیم الاحسان اور وہی بے لوث مہربانی کرنے والی ہستی ہے۔ سید ناصر ہاشمی کی شاعر ی میں ہمیں محبت کا پیغام ملتا ہے۔ میاںمحمد بخش کا شعر ہے ؎
پیار محبت سب ذاتاں توں اُچی ذات نیاری
نہ ایہہ بادی نہ ایہہ خاکی، نہ آبی نہ ناری
دنیا کی ہر زبان کی شاعری پیار اور محبت کی شاعری ہے۔ کسی فلسفی نے کہا تھا ’’صوفی ، مذہب کے ذریعے خدا سے ملاتا ہے۔ سائنس دان، عقل کے ذریعے حقیقت اولیٰ کو پہچانتا ہے اور شاعر حسن اور پیار کے ذریعے خدا کی ذات سے آگاہی حاصل کرتا ہے‘‘
سید ناصر ہاشمی کی شاعری کا مرکز تصوف اور پیار ہے۔ ایسا پیار جو رنگ، نسل اور علاقے کا امتیاز نہیں کرتا۔ بعض علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جو شاعری اور پیار میں مشہور ہو جاتے ہیں۔ ان میں گجرات اور بورے والا شامل ہیں۔ پنجابی کے صوفی شاعر ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو ان کے کلام کو ان کی زبان میں نہیں پڑھ سکتا۔ سید ناصر ہاشمی نے میاں محمد بخش کی شہرہ آفاق مثنوی ’’سیف الملوک‘‘ کے منتخب اشعار کا منظوم اردو ترجمہ کر کے میاں محمد بخش کا پیغام ایک وسیع طبقے تک پہنچانے کا تاریخی کام کیا ہے۔ آج کے انسان کش معاشرے میں صوفی شاعر ہی گمراہ شدوں کو روشنی کی لکیر دکھا سکتے ہیں۔ سید ناصر ہاشمی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر مترجم بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’من موجی‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مولوی غلام رسول عالم پوری کی یوسف زلیخا، بابا فرید گنج شکر کے شلوک، میاں محمد بخش کے سیف الملوک، شاہ حسین کے اشعار اور حاجی محمد دین گجراتی کے چند اشعار کا منظوم اردو ترجمہ شامل ہے۔
سید ناصر ہاشمی نے لفظی ترجمہ کے بجائے تخلیقی ترجمے کو ترجیح دی ہے۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، اس لیے ترجمہ نگاری کے دوران ان کے اندر کا شاعر بھرپور ساتھ دیتا نظر آتا ہے۔ سید ناصر ہاشمی نے جس خوبصورتی سے صوفی شاعروں کے پنجابی کلام کو اردو زبان میںڈھالا ہے، اس سے ان کی زبان دانی اور اصل خیال کو احاطۂ فکر میں ڈھالنے کی مہارت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
صوفی سالک کو متقی بناتا ہے۔ سالک کو خدا سے نہیں ڈراتا بلکہ اعمال کے نتائج سے آگاہ کرتا اور سمجھاتا ہے کہ گندم بیجنے پر گندم ہی حاصل ہو گی۔ صوفی درویش سالک کو بتاتا ہے کہ تو ہر وقت خدا کے حضور میں ہے لہذٰا قدم بھی دھیان سے رکھنا۔ کسی کا حق نہ مارنا، ناراض نہ ہونا، معاف کر دینا کیونکہ تیرا خالق رحیم ہے، معطی ہے اور غفور الرحیم ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے درویش تزکیہ نفس کا نصاب پیش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے باطن کی طرف سفر اختیار کرے۔ وہ سالک کو غوروفکر کی تلقین کرتا ہے۔ خواجہ معین الدینؒ نے محض خانقاہی نظام قائم کر کے ذاتی نجات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے بجائے اجتماعی تنظیم اور ان اقدار کی طرف دھیان دیا جس کی وجہ سے مجموعی سطح پر عام انسان کی فکری، معاشی، روحانی اور نفسیاتی حالت بہتر ہونا شروع ہو جائے تا کہ مرور زمانہ میں اس تحریک سے جنم لینے والے نتائج احسن تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکیں۔ اس انداز سے دیکھیں تو خواجہ صاحبؒ کی آفاقی جمہوریت کی لہر کے ذریعے تصوف کی شکل میں اچھے نتائج برآمد ہوئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن