نتائج حوصلہ افزاء نہیں … گھر تو ٹھیک کرنا ہوگا
خیال یہ تھا کہ اس مرتبہ جو کچھ پاکستانی حجاج کے ساتھ ہوا اسکی تفصیلات لکھونگا کہ کسطرح ہمارے حجاج کو ہمارے انتظامات سے تکلیف پہنچی، جبکہ سعودی عرب کے ڈائیریکٹر جنرل حج ڈاکٹر یوسفانی نے حج کے انتظامات کے ساتھ ساتھ میڈیا رابطہ کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی تھی اور روزانہ پاکستانی حجاج کے ویڈیو انٹرویو حج مشن کے بہترین انتظامات کے متعلق صحافیوں کو بھیجا کرتے تھے جس سے ’سب اعلی‘ ہے کہ پیغام ملا کرتا تھا جبکہ دوسری طرف پاکستانی حج مشن کے سامنے مظاہروں کی خبریں ملا کرتی تھیں، نہ صرف حج مشن کے سامنے بلکہ جب وزیر حج سردار یوسف حجاج کے ہاتھ لگے تو پریشان حجاج نے شکائتوں کے دفتر کھول دیئے، وزیر حج کے خلاف نعرے لگے، وزیر حج نے حجاج پر پہلے الزام عائد کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ مظاہرے کون کرا رہا ہے سب کچھ سوچا سمجھا ہے۔ وزیر حج نے پاکستان کے حجاج سے جان چھڑائی یہ کہہ کر کے ہمار ے انتظامات بہت اعلی ہیں جو مشکلات پیش آئی ہیں وہ سعودی حکومت کی جانب سے ہیں۔ نہ صرف یہ بات انہوںنے یہاں کہی بلکہ پاکستان جاکر بھی اسی قسم کا بیان دے کر سعودی انتطامات پر تنقید کی، وزارت حج کے ترجمان نے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ سعودی عرب نے ہم سے ناقص انتظامات کی معافی مانگی ہے۔ جو ایک نہائت افسوسناک بیان تھا جسطرح پاکستان میں سیاست دان ایک دوسرے پر بے پرکی الزام تراشیاں کرتے ہیں وہی طریقہ انہوں نے دوست ملک کے معاملے پر استعمال کیا، ہماری حکومت یا وزارت حج جو ایک پاکستانی کو تو کہیں ملازمت دلا نہیں سکتی وہ دوست ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی سعی کرتی ہے۔ وہ سعودی عرب جو ہر سال دس سے بیس لاکھ سے زائد ضیوف الرحمان کی ہر جگہ معاونت کرتا ہے وہ کسطرح ایک لاکھ پاکستانیوںکیلئے مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔ وزیر حج کے نارواں بیانات کے اوپر اسلام آباد میں عزیز ترین دوست سعودی عرب کے سفارت خانے کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ سردار یوسف کا یہ بیان غلط ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم خاقان عباسی کو درمیان میں آنا پڑا چونکہ وزیر حج مزید کچھ نہ کچھ کہہ سکتے تھے جس سے دوست ملک میں شک و شبہات پیدا ہوتے۔ میرے کالم کا دن آنے قبل ہی لاہور میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست پر معرکتہ آرا مقابلہ ہوا اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ میں ہی تھا بہ حیثیت حزب اختلاف پی ٹی آئی او ر یہاں تک کہ بے چاری پی پی پی بھی اپنی کامیابی کے دعوے کرتے رہے مگر جیت بیگم نواز شریف کی ہوئی۔ مسلم لیگ کیلئے تو یہ ایک خوشی کا مقام یقینا ہے مگر اس انتخابات سے یہ اشارے ضرور ملے کہ مسلم لیگ کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں جب گھر ہی مضبوط نہ ہو تو میں مسلم لیگ کے گھر کی مضبوطی کا ذکر کررہا ہوں، اسطرح نہیں جس مضبوطی کی بات امریکہ یا بھارت کرتا ہے شائد اسی پیرائے میں خواجہ آصف نے بھی کہا ہو جسکا محسوس کیا چوہدری نثار نے کہ شائد یہ بات دہشت گردی کے حوالے کی جارہی ہے ، جس گھر کی بات میں کررہا ہوں و مسلم لیگ ہے جسکے اندر دراڑیں نظر آنے لگی ہیں نہ صر ف مسلم لیگ بلکہ میاں خاندان کے اندر بھی ورنہ حمزہ شریف جس نے لاہور میں بے شمار کام کیا ہو مسلم لیگ کے قریب لوگوں کو لایا ہو انکابیگم نواز شریف کے انتخابات کے دوران ملک سے چلے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب چوہدری نثار کے بیانات جس میں ایک بات حوصلہ افزا ہوتی ہے ’’میں نواز شریف کی عزت کرتا ہوں، مسلم لیگ نہیں چھوڑونگا‘‘ اسکے علاوہ انکی تمام تر بات چیت صرف اور صرف نواز شریف کے خلاف ہی ہوتی ہے، اس سے زیادہ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ نہ ہی بولیں چونکہ اسوقت مسلم لیگ ایک سانحہ سے گزررہی ہے، وہ بھی اسطرح خاموش رہیں جسطرح مولانہ فضل الرحمان کے حافظ حسین احمد رہتے ہیںتمام تر اپنی پالیسی کے بعد انہوںنے کبھی فضل الرحمان پر کوئی الزام عائد نہ کیا۔ چوہدری نثار کے مریم نواز کو سیاسی نہ ماننے سے مریم نواز غیر سیاسی نہیں ہوجاتیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہمارے لیڈاران پاکستانی عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں چوہدری نثار کی جانب سے مریم نواز کو غیر سیاسی اور بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں کہنے کا جواب مریم نواز نے شائد اسی روز دے کر اپنی والدہ اور اپنی سیاست سے وابستگی اور جدوجہد کا ذکر بغیر چوہدری نثار کا ذکر کرتے ہوئے کردیا، میں نے پہلے بھی لکھا تھا ایک مرتبہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیں جن لوگوں کا ڈھکے چھپے الفاظ میں ذکر کرکے یہ لیڈاران پاکستان کے عوام کو بلڈ پریشر کا مریض بنا رہے ہیں اگر ہمت ہے تو کھل کر بات کرلیں ورنہ اس معاملے کو چھوڑ دیں کیونکہ زرداری لاکھ کہے کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجا دینگے‘‘ وہ بھی اقتدار کی خواہش جو اب پی پی پی سے بہت دور ہے کی وجہ سے میاں صاحب کا ساتھ نہیں دینگے۔ مفادات کی سیاست ہے ۔ جو چیزیں اقتدار میں رہتے ہوئے کرنے کی ہوتی ہیں وہ اقتدار سے باہر سڑکو ں پر نہیں ہوسکتیں۔ گزشتہ چند ماہ سے ہماری سیاست میں مجرمانہ طور پر ان اداروں کا تذکرہ عام ہونے لگا ہے جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حالیہ لاہور کے ضمنی انتخابات میں عمران خان اور مریم نواز نے عدالت عالیہ کا ذکر اسطرح کیا جسطرح مرحوم ضیاء الحق نے اپنی حمائت میں نام نہاد ریفریڈم کراتے ہوئے کہ تھا کہ اگر اسلام چاہتے ہیں ’ہاں‘ میں مہر لگائیں۔ پاکستان کے عوام اپنے آپکو سخت مسلمان تو نہیںکہتے مگر وہ یہ بھی نہیںکرسکتے تھے کہ نہ پر مہر لگا دیں۔ عدالت عالیہ کے معاملات جو بھی ہوں انہیں کم از کم دونوں کو یہ متنبہ یا الیکش کمیشن کو دونوں جماعتوں کو یہ ضرور کہنا چاہئے کہ انتخابات کی ہار جیت سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر میری دانست میں دونوں ہی جماعتیں اس سلسلے میں توہین عدالت کی مرتکب ہیں عمران نے تو ہر بات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دینا شروع کردیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ لاہور یا پنجاب میں میاں خاندان کے اقتدار اور کام کا حوالہ بہت پرانا اور مضبوط ہے یہ ہی کام انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آخر میں یہ کہونگا کہ میاں صاحب اپنی جماعت کو ٹھیک کرلیں 2018 زیادہ دور نہیں، نہ ہی لاہور ضمنی انتخابات کے نتائج بہت حوصلہ افزاء ہیں سوا تین لاکھ ووٹوں میں سے ستر ہزار ووٹ بھی نہ ملنا مسلم لیگ جیسی جماعت کیلئے خوش آئیند نہیں۔