تجاہل کالمانہ
یہاں رہنے سے کئی چیزوںکی پریکٹس ہورہی ہے جس میں ’’حقائق‘‘ سے نظریں چرانا بھی شامل ہے۔ خواتین جس طرح اپنے انداز اور مختصر لباس میں نظر آتی ہیں آپ کب تک حقائق سے نظریں چرا سکتے ہیں؟ اس طرح تجاہل عارفانہ کی اصطلاح کی بھی خوب سمجھ آرہی ہے کہ ہمارے صوفیاء نے تجاہل عارفانہ پر کیوں زور دیا تھاکیا کیا کچھ فطری مناظر کی حد میں آتا ہے‘ یہ سوچ سوچ کر حدود آرڈیننس یاد آجاتا ہے مگر چونکہ سب لوگ اپنے اپنے طور پر مصروف نظر آتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں اس لئے سب چیزوں کو برداشت کیا جاسکتا ہے مگر کچھ عادات ایسی ہیں کہ جاتے ہی جائیں۔ یہاں لوگ مسکرا کر بغیر واقفیت کے ’’گڈمارننگ‘‘ کہتے ہیں۔ سڑک کے ہر موڑ پر گاڑیاں پیدل لوگوں کے احترام میں کھڑی ہوتی ہیں۔ ٹریفک کے سب سنہری اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے اور دوسروں کو راستہ دینا عبادت کے درجہ پر ہے۔ اس طرح راستہ دینے والے کا شکریہ ادا کرنے کی روایت بھی اتنی ہی محترم ہے۔ اب لاہور کی ٹریفک کے عادی کیلئے یہ سب چیزیں تجاہل عارفانہ کی ریاضت کے بغیر کیسے ممکن ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے لاہور میں گاڑی چلا لی اس نے چاند پر بھی چلا لی۔ اللہ نہ کرے کبھی چاند پر لاہور جیسی ٹریفک ہو کہ جس میں دوسروں کو بچانے سے زیادہ دوسروں سے بچنے کی کوشش میں ہی زندگی کا سفر تمام ہوجائے!!’’وینکور‘‘ یوں تو کینیڈا کا اہم اور بڑا شہر ہے مگر اپنے سردار صاحبان اتنی کثرت سے ہیں اور اتنے خوشحال ہیں کہ امرتسر کا حصہ ہی لگتا ہے۔ ہمارے مہربان دوست اسلم ملک (امروز والے) اس کو مغربی پنجاب (یعنی ایسا پنجاب جو مغرب میں ہے) قرار دے چکے ہیں۔ یہ سڑک پر پنجابی بولتے سکھ حضرات ایک دوسرے کو ست سری الحال کہتے ہیں‘ واہے گروہ جی کا خالصہ واہے گرو جی کی فتح!! یہاں کا سب سے بڑا سٹور ہے جس کی انتظار گاہ میں بیٹھنے کا معقول بندوبست ہے۔ کافی سارے بزرگ سردار صاحبان یہاں مستقل نشست لگاتے ہیں‘ کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا اور نبقاضہ عمر فحش جنرل نالج بھی کافی ہوتا ہے چنانچہ ایک دوسرے کے درجات بلند کرتے رہتے ہیں۔ میں نے یہاں مستقل نشست کے بارے میں ایک نوجوان سکھ سے دریافت کیا تو اس نے بزرگوں کی شان میں کافی اعلیٰ گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب نامحرم خواتین کے دیدار کیلئے یہاں بیٹھتے ہیں کیونکہ گھروں میں ان کو اب منہ لگانے والا کوئی نہیں ہوتا کہ سب اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں۔
ہر بڑے مغربی شہر کی طرح یہاں بھی ہفتہ وار زندگی کا چلتن ہے کہ جمعتہ المبارک کی شام کو ہر کسی کو اپنے انسان ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ہفتہ کے روز گھر کے سب کام اور سودا سلف و ملاقات جبکہ اتوار کا دن اور رات سو کر اور آنے والے ہفتے کا ’’غم غلط‘‘ کرنے میں گزرتی ہے مگر ریاستی خودکفالت اور فانی زندگی کے یقین کے سبب بہت کم لوگوں میں روپیہ پیسہ جمع کرنے کا شوق ہے اور نہ ہی اس دوڑ میں پڑنے والوں کو معزز سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور ایک دوسرے کی بے لوث مدد کرنے کے جذبے سے مالا مال ہیں اور ایسا کرکے اپنے دور بیٹھے رشتوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہاں بڑی ٹھیٹ مگر ہندی ملی پنجابی سننے کو ملتی ہے کہ زیادہ تر سردار صاحبان کا تعلق بھارت سے ہے۔ گورمکھی ہی پڑھ سکتے ہیں مگر شاہ مکھی کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں کہ بہرحال وہ ان کے مذہب کا حصہ تھی۔
پچھلے اتوار کو پنجابی سوسائٹی والوں نے اپنے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی نوتج بھارتی کے چھوٹے بھائی اجمیر روڈ سے مجھے لینے اور چھوڑنے آئے‘ سب شعراء نے اپنی اپنی تخلیقات سنائیں‘ زیادہ تر شاعر ’’گجل‘‘ لکھنے والے تھے جو ترنم کے ساتھ اپنی ’’گجلیں‘‘ سنا رہے تھے۔ ایک بزرگ سردار نے اپنی آب بیتی کا باب سنایا جو پاکستان کے دیہی علاقے کی طرح کا ماحول تھا۔ نئی نسل جو چاہے پاکستانی ہے، سردار ہے یا ہندو ہے ساری ایک جیسی ہے مگر اپنی اپنی شناخت کے ساتھ، جو کسی نہ کسی طرح باہر آ جاتی ہے۔ اپارٹمنٹ لائف ہے، چھوٹے چھوٹے اپارٹمنٹ زندگی کی سب سہولتوں سے لیس ہیں مگر جائیداد کی خریدو فروخت پوری دنیا کی طرح آسان منافع بخش کاروبار ہے کہ کوئی اپارٹمنٹ بھی 4کروڑ سے کم کا نہیں، جتنے میں یہاں ایک اپارٹمنٹ خریدا جاتا ہے اتنے پیسوں میں لاہور ڈیفنس یا کسی ایسی ہی ’’معزز‘‘ آبادی میں ایک کنال کا گھر مل جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز سستی محسوس ہوتی ہے تو وہ کھانا پینا اور اگر کوئی چیز گراں ہے تو وہ زندگی ہے، یہاں لوگ زندگی سے زیادہ کسی چیز کو مہنگا نہیں سمجھتے جب کہ ہمارے ہاں زندگی ہی سب سے سستی ہے!! سب غیر ملکیوں کے ناسٹلجیا کی عمر بھی ان غیر ملکیوں جتنی ہے، ان کے بچے اب صرف اور صرف کینیڈا کے شہری ہیں جس پر وہ بجا طور پر فخر کرتے ہیں ویسے بھی جس قدر انسانی سہولتوں والا نظام ہے یہ بچے اب کبھی بھی اپنے بزرگوں کے دیس میں نہیں رہ سکتے کہ ماں تو صرف ناسٹلجیا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں!! بچوں کیلئے تخلیقی سرگرمیوں پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور ان کیلئے خاص طور پر میلے منعقد ہوتے ہیں جہاں ان کو اپنی تخلیقی سرگرمیاں دکھانے کا نادر موقع فراہم کیا جاتا ہے میں تو حیرت کے مارے زمین میں گڑھنے والا تھا جب پتہ چلا کہ سکولوں سے بچوں کو ہوم ورک نہیں ملتا، اور نہ ہی ٹیوشن کا کوئی رواج ہے۔ پڑھائی لکھائی کا معیار اور سلیبس ہی ایسا ہے کہ سکولوںمیں اور کالجوں میں ہی جتنی پڑھائی لکھائی کرا دی جاتی ہے وہ کافی ہے بچوں کو کتاب سے محبت کا پورا صلہ دیا جاتا ہے۔ وہ نالج اور میڈل کی شکل میں ہوتا ہے۔
لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے ہے ہر آبادی میں ایک معقول لائبریری ہے جس میں معقول کتابیں ہیں اور پڑھنے والوں کی تعداد بھی ’’معقول‘‘ ہے اس کے علاوہ ادبی و ثقافتی تقریبات کیلئے لائبریریوں میں جگہ مخصوص ہے، لوگوں کو ہماری طرح فائیو سٹار ہوٹلوں کی بالکل عادت نہیں، تنظیمیں اور ان کے کارکن خود ہی میزیں اور کرسیاں لگاتے ہیں اور انہیں اٹھا کر بھی رکھتے ہیں، ان میں مہمانان گرامی بھی شامل ہوتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام اور ان کیلئے جگہ چھوڑنا قبول عام ہے۔ اسی طرح بزرگ بھی بچوں سے بے پناہ شفقت اور محبت فرماتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اک دن بیٹا چیک کی طرح کیش ہوگا!!یہ سب چیزیں ہمارے بھی سماج کا حصہ تھیں جن کو ہم نے بڑی محنت سے ترک کیا ہے اور سرمایے کی محبت کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں، ہمارے ہاں تو اب صرف وہ معزز ہے جس کے پاس معزز ہونے کیلئے مطلوبہ سرمایہ ہے اور یہ سرمایہ کیسے مہیا کیا گیا ہے اس کے بارے میں سوچنے کا تردد اب ہم نے چھوڑ دیا ہے یہی حصہ ہے کہ ایک اچھی انسانی زندگی اور اس کے مظاہر ہم سے روٹھ گئے ہیں اور ہم اس عارضی زندگی کو معزز ہونے کیلئے مطلوبہ رقم کی فراہمی تک محدود کر چکے ہیں، جب انسانی زندگی کا ہدف اتنا پست ہو جائے تو پھر تجاہل عارفانہ جہالت عارفانہ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر تجاہل عارفانہ تجاہل عالمانہ میں کیوں نہیں بدل سکتا!!۔