• news
  • image

این اے 120کا بڑا معرکہ

پورے ملک کی نظریں لاہور کے حلقہ این اے 120پر لگی ہوئی تھیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہلی کے فیصلے کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر 17ستمبر کو ضمنی الیکشن کا اعلان کیا تھا۔ کل 44 امیدوار ایک دوسرے کے مدِّمقابل تھے۔ لیکن سب سے بڑا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی خاتون امیدواروں بیگم کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان تھا۔ یہ مقابلہ کیا تھا ایک جنگ تھی جو حلقہ این اے 120کے علاوہ میڈیا پر بھی لڑی جا رہی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی میدان میں تھی۔ آزاد امیدواروں کا ایک بڑا لشکر بھی قسمت آزمائی کر رہا تھا۔ لیکن اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین تھا۔ الیکشن سے پہلے سارا انحصار اِسی بات پر تھا کہ اگر پی ایم ایل این یہ نشست ہار جاتی ہے تو اُس کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا۔ کیا نواز شریف سیاست سے ہی فارغ ہو جائیں گے یا اُن کے پاس سیاست میں ’’اِن‘‘ رہنے کا کوئی چانس رہے گا۔ عمران خان نے بھی اس ضمنی الیکشن کو اپنی انا اور سیاسی بقاء کی جنگ بنا لیا تھا۔ دونوں جانب سے خوب بیان بازی بھی ہوتی رہی۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے سپریم کورٹ کے’’ فیصلے‘‘ کو اپنی بیان بازی اور تقریروں کا محور بنا لیا تھا۔ کلثوم نواز اپنی ’’بیماری‘‘ کے سبب ملک میں نہیں تھیں۔ اس لیے ان کی الیکشم مہم اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے چلائی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی ووٹ کے حصول کے لیے ہر گھر پردستک دی۔ پیپلز پارٹی اگرچہ لاہور میں بڑی ہی غیر فعال ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اُس کے امیدوار فیصل میر بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلاتے رہے۔ سب اپنی جیت کے لیے پُراعتماد تھے لیکن سب لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اصل مقابلہ صرف دو پارٹیوں کے درمیان ہی ہے۔ سب کو گمان تھا کہ جو بھی کامیاب ہوا کسی بڑی’’ لیڈ ‘‘کے ساتھ کامیاب نہیںہو گا۔
حلقے میں تمام امیدواروں نے کھل کر پیسہ لگایا۔ جلسے بھی ہوئے، کارنر میٹنگ بھی اور ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ الزامات کی بارش تھی جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے خوب دل کی بھڑاس نکالی اور کسی دم بھی نواز شریف کو معاف نہیں کیا۔ کئی بار شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑا گیا۔ لیکن نواز شریف کی صفوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے ایسی زبان عمران خان کے بارے میں استعمال کی ہو۔
لاہور کا حلقہ این اے 120ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔ جس میں 220پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ اکتالیس ہزار سے زائد تھی۔ اس حلقے میں زیادہ تر اندرون شہر کا قدیم حصہ شامل تھا۔ نواز شریف گزشہ 30سال سے اسی حلقے سے منتخب ہوتے آئے ہیں۔ لیکن پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے جب اقامہ پر نااہلی کا فیصلہ سنایا اور یہ نشست خالی ہوئی تو کلثوم نواز کو پی ایم ایل این کی جانب سے امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے امیدوار نامزد کی جانے والی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد 2013ء کے جنرل الیکشن میں بھی اس نشست سے نواز شریف کے مدمقابل انتخاب لڑ چکی تھیں۔ اس الیکشن میں نواز شریف بانوے ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر جیتے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد باون ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر یہ نشست ہار گئیں۔ یہ اُ ن کا مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے ساتھ دوسرا مقابلہ تھا۔ عام رائے تھی کہ کلثوم نواز اس نشست سے انتخاب جیت جائیں گی۔ معروف تجزیہ کاروں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا۔ مقابلہ کانٹے کا تھا۔ کانٹے کا رہا۔
نتائج آنا شروع ہوئے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد الیکشن جیت جائیں گی۔ لیکن جب بعد میں رزلٹ آنا شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کا مرکزی الیکشن آفس سپورٹروں اور رہنمائوں سے خالی ہونا شروع ہو گیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کیمپ آفس میں جیت کی متوقع امید کے ساتھ ہزاروں کارکن اور رہنما جمع ہو گئے۔ جیسے ہی تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی ختم ہوئی اور آخری رزلٹ بھی آ گیا تو مسلم لیگ (ن) کے مرکزی کیمپ آفس میں ’’اک واری فیر، شیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ یہ نعرے اتنے فلک شگاف تھے کہ سارا ماڈل ٹائون جاگ پڑا ۔ ن لیگ کو جنرل الیکشن سے کم ووٹ پڑے۔ ن لیگی رہنمائوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ لاہور کا ووٹر دوپہر کو ووٹ ڈالنے نکلا۔ پانچ بجے پولنگ ختم ہونے کا وقت تھا لیکن اس وقت تک پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ الیکشن آفس پنجاب سے ن لیگ نے استدعا بھی کی کہ پولنگ کا وقت بڑھا دیا جائے۔ لیکن اُن کی یہ استدعا منظور نہ ہوئی۔ ن لیگ کا مؤقف ہے کہ اگر وقت میں اضافہ کر دیا جاتا تو ان کے ووٹوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔باتیں تو بہت سی ہیں جو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ہوتی رہیں گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف حلقہ این اے 120سے اپنی دیرینہ نشست بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی امیدوار نے انہیں بڑا ٹف ٹائم دیا اور یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ انہیں اپنی یہ نشست بچانے کے لیے ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑا۔ 2018ء کا جنرل الیکشن بھی چندہ ماہ بعد آنے والا ہے۔ مسلم لیگ کے پاس اب چھ یا سات ماہ باقی ہیں۔ اس دوران اُس نے اگر اپنی کارکردگی کو بہتر بنایا اور کچھ کر دکھانے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے الیکشن میں کامیابی کی توقع کر سکتے ہیں۔ ورنہ اُن کی حکومت سے ہی نہیں، سیاست سے بھی چھٹی ہو جائے گی۔ نواز شریف فیملی کے خلاف نیب عدالت میں جو کیس کھلنے جا رہے ہیں وہ بہت ہی خوفناک ہیں۔ حدیبیہ پیپر مل کا کیس بھی ہائی کورٹ میں اوپن ہو رہا ہے۔ اس لیے نواز شریف کے لیے آنے والا وقت کچھ بہتر نہیں۔ بہت کچھ ان آنے والے چند ماہ میں ہو جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا اس ضمنی الیکشن میں شرمناک رزلٹ دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں اب اُن کی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی ایک مضبوط سیاسی قوت کے طورپر مسلم لیگ (ن) کا پیچھا کرتی رہے گی۔

سعد اختر

سعد اختر

epaper

ای پیپر-دی نیشن