وزیر اعظم عباسی کا دورئہ امریکہ، مثبت پیش رفت
وزیر اعظم پاکستان شاہد خا قان عباسی نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے نیویارک میں کو نسل آف فارن افیئر ز میں با تیں کر تے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیا ر دفا ع کیلئے ہیں ، ایٹمی اثاثو ں کا مضبو ط کنٹر ول اینڈ کمانڈ سسٹم رکھتے ہیں، پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ میں کوئی شبہ نہیں، پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل ہتھیار نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاک سر زمین افغانستان کیخلاف استعمال نہیں ہو رہی پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی محفوظ ٹھکا نہ نہیں۔ خطے میں بھارتی بالا دستی قبول نہیں۔ حملہ آور سر حد پا ر افغانستان سے داخل ہو کر پاکستان میں دہشت گر د کا رروائیاں کر تے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔
وزیر اعظم کی یہ بات چیت انٹر نیٹ پر براہ راست نشر کی گئی۔ شاہد خا قان عباسی نے کہا کہ ٹھو س ’’بارڈ رمینج منٹ‘‘ کے ذریعے دو طرفہ سرحد کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ امریکی نائب صد ر مائیک پینس کے ساتھ ملا قات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ملا قا ت میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلا ف رائے پر بھی بات ہوئی اور تو قع ہے کہ ’’بات چیت کے ذریعے تعمیری پیش رفت ہو گی ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کوئی امریکی فوجی اڈا نہیں ہمیں امداد نہیں چاہیئے بلکہ بین الا قوامی منڈیوں میں رسائی درکا ر ہے۔
ڈرون حملوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا احترام لازم ہے، بنیادی حقیقت یہ ہے کہ طالبا ن دراصل افغان ہیں۔ بھارت سے تعلقات کی راہ میں کشمیر کا مسئلہ حائل ہے، جسے اقوام متحدہ کی سلا متی کونسل کی ماضی کی قرار دادوں کے تحت حق خودارادیت کے اصول پر عمل درآمد کے ذریعے حل کیا جا نا چاہیے۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ستر سالہ تاریخ گرم جوشی اور سر د مہری سے عبارت ہے، تاہم دونوں ملکوں کے درمیان اتنی کشید گی پہلے کبھی نہ دیکھنے میں آئی جو اس وقت دیکھی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے ما بین اس کشید گی کا محرک امریکی صد ر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بنی جس میں ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان پر الزاما ت کی بارش کر دی بلکہ امریکی انتظامیہ نے بھی پاکستا ن پر فضائی حملوں کی دھمکی دے ڈالی۔
دہشت گردی کے خلا ف ایک بھیا نک جنگ لڑنے اور اپنے ہزاروں شہری اور فوجی افسر و اہلکا ر شہید کرانے اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنے والے پاکستان کے لیے امریکہ کا یہ درشت رویہ نا قابل قبول تھا۔ پاکستان کے دوست ممالک نے بھی امریکی الزما ت کو رد کر تے ہوئے پاکستان کی قربانیوں کا احترام کر نے پر زورد یا۔ پاکستان اس معاملے پر بجا طور پر ڈٹ گیا امریکی امداد سے انکا ر کر تے ہوئے اعتماد کی خواہش کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغانستان میں موجو د دہشت گردی کے اڈے ختم کیے جائیں جو پاکستان کے خلا ف کارروائیاں کر تے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلا متی کمیٹی نے بھی یہی موقف اپنایا۔ قصہ مختصرامریکہ کو اس کی توقعا ت کے برعکس جواب ملا۔
بات یہاں تک جا پہنچی کہ پاکستان نے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کو دورئہ پاکستان سے بھی روک دیا۔ جبکہ دوسری جانب ہماری سینیٹ نے وزیر خارجہ کو امریکی دورے سے روک دیا ۔ اور اوہ اپنے طے شد ہ شیڈول سے ایک روز قبل ہی وہ دورہ چین کے لیے روانہ ہو گئے بعدا زاں انہوں نے ایران کا بھی دورہ کیا۔ امریکہ کے لیے یہ صورت حال غیر متو قع تھی چنا نچہ اس کے رویے میں قدرے نرمی آئی اور امید بندھی کہ اب معاملات کو گفت و شنید سے طے کر لیا جائے گا لیکن اسی دوران فاٹا کی کرم ایجنسی میں ڈرون حملہ کر دیا گیا یہ حملہ پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے میں کیا گیا جس میں تین افراد جا ں بحق ہوگئے۔
ٹرمپ کی دھمکی کے بعد یہ پہلا ڈرون حملہ تھا۔ نیو یارک میں کونسل آف فارن افیئر ز میں وزیر اعظم پاکستان نے ڈرون حملے پر خاص طو ر پر کہا کہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا احترام لا زم ہے۔ ان کی جس بات پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے یہ ہے کہ پاکستان کے پا س محا ذ جنگ میں استعمال ہو نے والے ٹیکٹیکل نیو کلیئر ہتھیار نہیں ہیں یہ بیان پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ سطح عہدیدار کی طرف سے دیا جانے والا بیان ہے اور امید ہے کہ اس حوالے سے اب بحث بند ہو جانی چاہیے لیکن انڈیا اور اس کے اتحا دی ہنو ز اس بات پر مصر ہیں کہ پاکستان کے پاس ایسے ہتھیار موجو د ہیں۔ پاکستان نے ایسے ہتھیاروں کی موجو دگی کا کبھی دعویٰ نہیںکیا۔
بہر کیف وزیرا عظم پاکستان نے نیو یارک میں انہی خیالا ت کا اظہار کیا جو اس وقت قومی بیانیہ قرار دیا جا سکتا ہے اس لیے کہ پوری قوم اور ادارے اس پر متفق ہیں۔وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کی سب سے اہم بات امریکی نائب صد ر مائیک پینس سے ملا قا ت ہے جس میں عندیہ دیا گیا کہ با ت چیت کے ذریعے تعمیر ی پیش رفت ہوگی۔ قبل ازیں بھی اسی بات کا اعا دہ کیا جا چکا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین بد اعتما دی اور غلط فہمیاں بات چیت سے ہی دور کی جا سکتی ہیں لٰہذا ایسی راہ اپنا ئی جا نی چاہیے لیکن اس بات چیت میں فدویانہ رویہ اختیار نہیں کر ناچاہیے کہ امریکی انتظامیہ خوب سمجھ چکی ہے کہ پاکستان سے بگاڑ کر وہ اس خط میںاپنی افواج کی موجو دگی کو ممکن نہیں بنا سکتی اور اب پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں زبر دست تبدیلی لا نا چاہیے تاکہ امریکہ سمیت دیگر ممالک پر ہمارا مو قف واضح ہو سکے۔