اتوار ‘3؍ محرم الحرام 1439ھ‘ 24؍ ستمبر2017
ایسا لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے نوازشریف کی رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے: قمر زمان کائرہ
عجیب بات ہے نتائج پیپلز پارٹی والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں مگر فکر انہیں اس رسی کی لگی ہے جس میں اوپر والا نوازشریف کو ڈھیل دے رہا ہے اور پریشان کائرہ صاحب ہیں کہ نوازشریف کو اوپر سے ڈھیل کیوں مل رہی ہے۔ بری طرح ہاری تو پیپلز پارٹی ہے مگر بھاشن مسلم لیگ (ن) والوں کو دیا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کائرہ صاحب اپنے قائدین سے پوچھیں کہ تخت لاہور کو الٹانے کی سازش کا نتیجہ دیکھ لیا۔ سارا پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ لاہور جو پاکستان کا دل ہے جو اس میں بستا ہے وہ پورے ملک پہ حکومت کرتا ہے۔ اب تو کائرہ صاحب
’’جاگ میرے ’’زردار‘‘ کہ ’’اب پنجاب‘‘ گیا‘‘
والی نظم اپنی پارٹی کے اجلاس میں ضرور سنائیں تاکہ قیادت کو پتہ چل سکے کہ این اے 120 ہی نہیں پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ نواز شریف کی فکر چھوڑیں فی الحال زرداری صاحب کی فکر کریں۔ پرویز مشرف نے براہ راست ان کو بے نظیر اور مرتضیٰ کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ممکن ہے پرویز مشرف کے پاس اسکے ثبوت ہوں۔ اگر ایسا نہیں تو زرداری صاحب اپنے دور حکومت میں کیوں خاموش رہے اورسابق صدر کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں لائے۔ اب کائرہ صاحب کو زرداری صاحب کی رسی کی فکر کرنی چاہئے۔ اب کہیں پنجاب کے بعد سندھ میں بھی حلقہ 120 والی صورتحال نہ سامنے آ جائے۔ مرتضیٰ بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ والے تو پہلے ہی مرتضیٰ اور بے نظیر کے قتل میں ان کی طرف انگلیاں اٹھاتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭
آئی بی آفس کے متعدد افسر و اہلکار دشمن ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست
اگر تو درخواست گزار کی بات درست ہے تو پھر ہمیں اپنی خیر منانی چاہئے۔ جب ہماری اپنی انٹیلی جنس بیورو کے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں تو ہم بھلا اپنے دشمنوں سے کس طرح دو دو ہاتھ کر پائیں گے۔ مسلکی اختلافات اپنی جگہ مگر جہاں ملک و قوم کی بات آتی ہو وہاں ہمیں تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف اپنے ملک و قوم کا ساتھ دینا چاہئے۔ روپے پیسے کے لئے اپنے ایمان کا سودا نہیں کرنا چاہئے۔
ایران‘ شام‘ بھارت‘ افغانستان اور ازبکستان کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو گھیر کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں تو ہماری اپنی خفیہ ایجنسیاں اپنی ان کالی بھیڑوں کو کیوں گھیر کر کیفرکردار کو نہیں پہنچا سکتیں۔ یہ خبر ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرنے والی نہیں۔ نہ ہی اس پر مٹی پاؤ پالیسی اختیار کی جا سکتی ہے۔ ایران اور شام والوں کو اپنی لڑائی خود لڑنے دیں۔ ہمیں پرائی آگ میں کودنے کا کوئی فائدہ نہیں چند ٹکوں کی خاطر پرائی آگ سے اپنا دامن جلانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بھارت اور افغانستان تو ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے یک جسم دو جان بنے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں آسانی سے ہماری کالی بھیڑوں کو تلاش بھی کر لیتے ہیں۔ ان کو پالتے بھی ہیں۔ انکے ہاتھوں میں پلنے والی بھیڑیں تو سیدھی مذبحہ خانے پہنچانے کے لائق ہیں۔ ان پر کوئی ترس نہ کھایا جائے۔ بس حیرت ازبکستان کے نام سے ہے کیا وہ بھی ایران‘ شام کی مسلکی جنگ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنے کیلئے ہمارے باڑے میں گھس رہا ہے۔ پھر تو واقعی ہمیں اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ہرات میں گلبدین حکمت یار پر بھی جوتا پھینکا گیا۔
اب سمجھ نہیں آ رہا کہ انہیں عالمی جوتا کلب میں شامل ہونے پر مبارکباد دیں، جس میں بڑے بڑے عالمی رہنما شامل ہیں یا اس شخص کی حماقت کا ماتم کریں جس نے ایسا کیا۔ سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ پاکستانی جماعت اسلامی کی لاہور کے الیکشن میں خراب کارکردگی کے اثرات افغانستان تک کیسے جا پہنچے۔ گلبدین حکمت یار ہماری پیاری جماعت اسلامی کے گل سر سبد تھے۔ جماعت کے جلسے جلوس میں ان کے نعروں کے بغیر رنگ ہی نہیں جمتا تھا۔ لگتا تھا افغانستان میں صرف حکمت یار ہی برسرپیکار ہیں باقی سب بیکار ہیں پھر وقت بدلا تو انہی حکمت یار نے پاکستان آ کر جماعت اسلامی کے پہلو میں بیٹھنے کی بجائے ایران میں پناہ گزین ہونا زیادہ بہتر سمجھا۔ تب جا کر جماعت اسلامی کے پنڈال سے انکی تصاویر اور جلسوں سے نعرے غائب ہوئے۔ اب حکمت یار صاحب نے افغانستان میں امن کیلئے طالبان اور حکومت افغانستان میں صلح کا جو ڈول ڈالا ہے فی الحال اس کے زیادہ مثبت نتائج تو سامنے نہیں آئے مگر افغانستان میں امن چاہنے والے حلقوں میں انکی قدر و منزلت بڑھی ہے۔ عوام بھی اس خانہ جنگی و تباہی سے تنگ آ چکے ہیں۔ مگر یہ جو انتہا پسند جنونی ہر جگہ پائے جاتے ہیں یہ کب برداشت کرینگے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ طالبان اور افغان حکومت میں صلح ہو۔ اس لئے ہرات کی جامع مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے ایک ناہنجار شخص نے نعرہ تکبیر لگاکر ان پر جوتا پھینکا جو نہایت افسوسناک حرکت ہے۔ خدا جانے یہ شخص جس کی شناخت نہیں بتائی گئی کون تھا۔ جس کی اس حرکت کی وجہ سے حکمت یار صاحب بھی عالمی جوتا کلب کے ممبران میں شامل ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
عورتوں کو کم عقل کہنے پر سعودی عالم کی امامت اور تقریر پر پابندی
عورتوں کو کم عقل یا ناقص العقل سمجھنا بہت پرانی ریت ہے۔ پدر سری معاشرے میں اسی کے بل بوتے پر عورتوں کو دبانے کا عمل آج سے نہیں صدیوں سے نمو پاتا رہا ہے۔ اسلام آیا تو ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ چھا گیا۔ پستی میں گری اس مخلوق کو بھی جینے کا ڈھنگ آ گیا۔ بطور ماں‘ بیٹی‘ بیوی‘ بہن اسکی عزت و حرمت کو اعلیٰ درجہ ملا۔ مرد اور عورت کو علم و عمل میں برابر سزا و جزا کا حقدار قرار دیا گیا۔ رہی عقل کی بات تو عورتوں کو کم عقل کہنے والے مرد حضرات ذرا خود اپنی اداؤں پہ غور کریں۔ ایک کم عقل عورت جب ان بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل پر پردہ ڈال سکتی ہے‘ انہیں اپنے اشاروں پر نچا سکتی ہے تو بھلا وہ کم عقل کیسے ہوئی۔ کم عقل تو یہ مرد ہوئے جو عورتوں کی باتوں میں آ کر ناچتے ہیں۔ آج تک کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ فلاں عورت مرد کے اشاروں پر ناچتی ہے یا مردوں نے ان عورتوں کی عقلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ عقل کے میدان میں عورتوں کو جو یدطولیٰ حاصل ہے اس میں بے چارے یہ مرد حضرات تو عورتوں کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب اس مولوی صاحب کے ایسے بیانات سے تنگ آ کر بالآخر صوبے کے گورنر نے انہیں امامت اور تقریر و تبلیغ سے روک دیا ہے کیونکہ اس پر پہلے ہی شور مچ چکا ہے۔ اب مزید گڑبڑ پھیلنے سے پہلے ہی اس کی روک تھام کر دی گئی ہے۔