• news
  • image

مرتضیٰ اور بینظیر کو کس نے قتل کرایا؟

پاکستان کے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے واشگاف انداز میں ویڈیو پیغام کے ذریعے کہا ہے کہ بھٹو خاندان کی تباہی‘ مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل کے اصل ذمہ دار آصف علی زرداری ہیں۔ پرویز مشرف نے اس کھلے راز سے اب کیوں پردہ اٹھایا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بینظیر بھٹو قتل کیس لاہور ہائیکوٹ کے راولپنڈی ڈویژن بنچ میں انسداد دہشت گردی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے وقت سابق صدر پرویز مشرف کو مقدمے میں براہ راست فریق بنایا ہے۔
پیپلز پارٹی کا مئوقف ہے کہ بے نظیر بھٹو کا اصلی قاتل سابق آمر پرویز مشرف ہے اور اس نے بیت اللہ محسود کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو قتل کروایا۔ جواب آں غزل کے طور پرسابق صدر پرویز مشرف یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ واضح کیا جائے کہ بے نظیر کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا؟ یقیناً بے نظیر بھٹو کے قتل کا فائدہ آصف علی زرداری سمیت تمام پیپلزپارٹی کو ہوا۔ کیونکہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیںتو آصف علی زرداری پیپلزپارٹی پر قابض ہوتے یا صدر بنتے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ہمدردی کے ووٹ ملے اور اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ٹھہری کہ مرکز میں اقتدار پیپلزپارٹی کے حوالے کر دے ۔
پرویز مشرف کیا ساری قوم پوچھتی ہے کہ آخر سانحہ کارساز کے بعد جب بے نظیر بھٹو کی جان بمشکل بچی وہ کیوں بم پروف گاڑیوں کے سن روف سے باہر نکلتی تھیںکس مقصد کے لئے‘ بم پروف گاڑی کی چھت ایک دیسی مستری سے کٹوا کر کھڑکی بنوائی گئی تھی جب کہ دوبئی میں کمپنی نے یہ کام کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی گاڑی میں میجر امتیاز، خالد شہنشاہ، امین فہیم، ناہید خان موجود تھیں۔ جب خیر خیریت سے جلسہ ختم ہوگیا تو کہا جاتا ہے کہ دبئی سے بے نظیر بھٹو کے بلیک بیری پر بار بار فون کروایا گیا کہ بے نظیر بھٹو گاڑی کی چھت سے باہر نکل کر مجمع کو ہاتھ ہلائیں۔
بے نظیر بھٹو کی ذاتی خادمہ ناہید خان جو جلسے میں بے نظیر بھٹو کے ڈائس کے سامنے سے کسی کو گزرنے نہیں دے رہی تھیں تو وہ انہیں اپنا باڈی کور دیتی تھیں مگر ا س دن انہیں وہ نہ تو روک سکیں کہ وہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر نہ نکلیں اور نہ ہی وہ انکے آگے یا پیچھے کھڑی ہوئیں مشرف کے کہنے پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم نے بے نظیر سے ملاقات کی اور انہیں راولپنڈی جلسہ کرنے سے منع کیا۔ جب بے نظیر نے انکار کیا تو انہوں نے انہیں پولیس کی سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے آمادہ کیا مگر حیرت ہے کہ انہوں نے پولیس کی سیکورٹی لینے سے انکار کر دیا اور کہا انکی سیکورٹی کی ذمہ داری انکے شوہر آصف علی زرداری پر ہے اور انہی کے بندوں نے آصف علی زرداری کے کہنے پر بے نظیر کی گاڑی کے اردگرد دو لائنوں کا کور بچھایا ہوا تھا اور اکثریت ان میں سے جرائم پیشہ اشتہاری مجرموں پر مشتمل تھی۔ بے نظیر بھٹو کی جب بار بار بلیک بیری پر پیغامات آئے کہ وہ عوام کو گاڑی کی چھت سے نکل کر ہاتھ ہلائیں حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہ تھی کیونکہ جلسہ کامیابی سے ختم ہوگیا تھا اور میں اس کا عینی شاہد ہوں کہ بے نظیر بڑے اطمینان سے لیاقت باغ سے نکلیں اور چند سو افراد کی موجودگی میں اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
بے گناہ سعود عزیز نے‘ جو کسی قصور کے بغیر عتاب میں آ گیا‘ واضح طور پر بی بی کے چیف سیکورٹی افسر میجر امتیاز سے کہا تھا کہ کسی صورت میں بھی بے نظیر راستے میں لوگوں کو خطاب نہیں کریگی اور گاڑی تیز چلاتے ہوئے دائیں طرف مڑتے ہوئے نکل جائیں۔ پولیس افسران نے سکھ کا سانس لیا مگر اچانک گاڑی دائیں طرف مڑنے کی بجائے بائیں طرف مڑ گئی جو راستہ راجہ بازار کی طرف جاتا تھا وہاں پہلے سے ہی لوگوں کا جم غفیر تھا۔ بے نظیر کی بد قسمتی اسے گاڑی سے باہر لے آئی۔
بے نظیر کی گاڑی کے انتہائی قریب سے پسٹل سے فائر ہوا جو غالباً انکے سر پر لگا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ اس پستول کے فائر سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ لیفٹ سائیڈ پر بلند و بالا کسی بلڈنگ کے اوپر موجود سنائپر کے فائر سے ہلاک ہوئیں ساتھ ہی بم دھماکا ہوا چونکہ گاڑی بم پروف تھی لہٰذا گاڑی میں موجود تمام افراد محفوظ رہے۔ بے نظیر کے پیچھے گاڑی میں رحمان ملک اور چند دوسرے اہم افراد موجود تھے مگر وہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی کو فالو ہی نہیں کر رہے تھے اور بڑے اطمینان سے اسلام آباد زرداری ہائوس پہنچ گئے۔
اگر بے نظیر بھٹو کو گولی لگی تو یہ گاڑی کے اندر موجود افراد ہی بتا سکتے تھے اور پھر جنرل سول ہسپتال جو چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا، وہاں جانے کی بجائے بے نظیر بھٹو کو شیری رحمن کی گاڑی میں حالیہ بے نظیر ہسپتال مری روڈ لے جایا گیا مگر بے نظیر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو جان دے چکی تھیں۔ وہ خالد شہنشاہ جو بے نظیر بھٹو کے جلسے میں انکے پیچھے اور کبھی بائیں طرف کھڑے ہو کر اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر عجیب و غریب اشارے کر رہا تھا وہ کراچی میں رحمان ڈکیت کے ہاتھوں مارا گیا، رحمان ڈکیت کو بعد میں چودھری اسلم نے پولیس مقابلے میں مار دیا اور چودھری اسلم بھی خود کش حملے میں مارا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی ایک کزن جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی نعش کو غسل دیا وہ بھی پراسرار ایکسیڈنٹ میں ماری جا چکی ہیں اور جس پجیرو کو حادثہ پیش آیا وہ انہیں بے نظیر بھٹو ہی نے تحفے کے طور پر دی تھی۔
اقوام متحدہ کی بھیجی گئی ٹیم سے رحمن ملک اور دوسرے لوگوں نے تعاون کیا۔ دو سال تک بے نظیر بھٹو کا بلیک بیری فون نہ ملا اورجب ملا تو اس میں سے تمام ڈیٹا ختم ہو چکا تھا۔ یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلئے دوسرے لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتا تھا۔اگر بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں تو پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹایا نہ جاتا کیونکہ مغربی قوتوں اور امریکہ نے طالبان اور القاعدہ کا مقابلہ کرنے کیلئے دونوں کو یکجا رکھنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اور محض اس بنیاد پر کہ بے نظیر بھٹو نے مارک سیگل کو ای میل کی تھی کہ انہیں پرویز مشرف سے جان کا خطرہ ہے۔
پتہ نہیں کس کے کہنے پر یا عدم تحفظ کا شکار ہو کر بے نظیر بھٹو نے نہ صرف پرویز مشرف بلکہ جنرل حمید گل مرحوم اور پرویز الٰہی کا بھی نام لیا تھا۔ جنرل حمید گل مشرف سے مل کر کیسے سازش کر سکتے تھے کیونکہ وہ تو مشرف کے سخت خلاف تھے اور مشرف نے انہیں چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں جیل بھجوایا تھا۔ مشرف تو اپنے بدترین دشمن نوازشریف اور افتخار چودھری کو ختم نہیں کر سکا اسے کیا ضرورت تھی کہ پہلے بے نظیر کو پاکستان آنے دے اور بعد میں اسکو ختم کرائے وہ بھی بیت اللہ محسود کے ذریعے جو خود مشرف کو ہلاک کرنے کے در پے تھے۔ مشرف کیلئے تو اصل سیاسی خطرہ نوازشریف تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں تو پنجاب میں پیپلزپارٹی کا حال 2007ء میں وہی ہو چکا ہوتا جو آج ہے۔
بے نظیر بھٹو کو انکے اپنے ساتھیوں نے مقتل گاہ روانہ کیا تاکہ وہ اقتدار کے مزے لوٹ سکیں اور یہی کھیل نوازشریف کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اللہ نوازشریف کو عمر خضر عطا کرے۔ وار کوئی اپنا کرے گا نام بدنام ہوگا اسٹیبلشمنٹ کا۔ معروف صحافی ارشاد احمد حقانی مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر ستمبر کے1996ء کے آخری ہفتے بے نظیر بھٹو سے تعزیت کرنے ایوان وزیراعظم گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ بھائی کی موت پر زار و قطار رو رہی تھیں اور بے حد کمزور لگ رہی تھیں۔ چھ بجے تک لوگ تعزیت کر چکے تو کمرے میں صرف بی بی‘ زرداری اور دس بارہ مرد اور خواتین رہ گئیں۔
محترمہ حقانی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگیںآپ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ المیہ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے اور یہ یقیناً ایک سازش تھی یہ سازش کس نے کی اور باقاعدہ باوردی پولیس فورس کے ذریعے اس پر عملدرآمد کیوں اور کیسے کامیاب رہا۔ بے نظیر کا جواب تھا میں نے کبھی نہیں کہا کہ پولیس افسران بے گناہ ہیں مگر وہ بتانے لگیں کہ میں نے جب مرتضیٰ کی لاش دیکھی تو وہ کسی برسٹ سے ہلاک نہیں ہوئے بلکہ سنگل شارٹ سے نشانہ لے کر انہیں مارا گیا۔ بعد میں واقعہ کے ذمہ دار پولیس افسران اعلیٰ عہدوں پر فائزرہے۔ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو دونوں کو نشانہ لے کر مارا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے؟
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن