• news
  • image

نویں BRICS کانفرنس اور پاکستا ن!

رواں ماہ میں چین میں ہونے والی نویں BRICS کانفرنس کے ا ٓخر میں چین پہلی بار کسی ایسے اعلامیہ کا حصہ بنا جس میںایسی کچھ تنظیموں کو نام لے کر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہو کہ ان کا کسی بھی طرح کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس اعلامیہ میںطالبان، داعش اور القاعدہ وغیرہ کے علاوہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کا نام لے کر ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ( بحوالہ شق نمبر 47اور 48) پاکستان نے اس مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان گزشتہ دہائیوں میں نہ صرف خود سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی دے چکا ہے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ اس اعلامیہ میں کچھ نیا نہیں اور جن تنظیموں پر اقوام متحدہ نے پہلے ہی پابندی لگا رکھی ہے وہ پاکستان کی کسی بھی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔ چین نے بھی اس سلسلے میں پاکستان کی تشویش کو کم کرنے کے لیے کہا ہے کہ ــ ـــ’’ امید ہے کہ پاکستان صورت حال کا درست اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لے گا اور اس بارے میں ہونے والے کسی منفی پراپیگنڈہ پر دھیان نہیں دے گا‘‘ اور یہ کہ ’’ BRICS کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کی یہ شق بنیادی طور پر افغانستان کے بارے میں ہے اور اس میں جن تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے ان پر اقوام متحدہ نے پہلے ہی پابندی لگا رکھی ہے‘‘۔
یاد رہے کہ اس قسم کا مشترکہ اعلامیہ بھارت گزشتہ برس ’’ گوا‘‘ میں ہونے والی BRICS کانفرنس کے بعد بھی جاری کروانا چاہتا تھا لیکن اس وقت اسے چین کے اعتراض کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ رواں ماہ میں ہونے والی کانفرنس میں بھارت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت گوا میں ہونے والے کانفرنس کا میزبان تھا اور اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے بھارت کو اس وقت چین کی بات ماننی پڑی۔
اسی طرح اس برس یہ کانفرنس چین میں ہو رہی تھی اور چین اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا کہ بھارت اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دے۔ مزید یہ کہ ڈوکلام کے چین بھارت تنازعے نے بھی اس سلسلے میں کردار ادا کیا ہو گا۔ بھارت نے اس کانفرنس سے قبل متنازعہ علاقوں سے اپنی فوج واپس بلوا لی تھی۔ شاید بھارت اور چین کے مابین کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کچھ طے ہوا ہو۔۔
وجوہات اور محرکات جو بھی ہوں ،BRICS تنظیم کے رکن پانچ ممالک (برازیل، روس، بھارت، جنوبی افریقہ اور چین) آبادی کے لحاظ سے تمام دنیا کا چالیس فیصد اور رقبے کے لحاظ سے پچیس فیصد سے زائد ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس تنظیم کی جانب سے کسی بھی اعلان کا پاکستان کے پالیسی ساز نہایت گہرائی سے جائزہ لیں اور اس بارے میں سنجیدگی سے غور کریں کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کی بنا پر چین بظاہر ایک پاکستان مخالف مشترکہ بیان کا حصہ بنا۔
پاک چین دوستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان دو ممالک کی دوستی پہاڑوں سے اونچی، سمندورں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں پاک چین دوستی بے شمار امتحانات سے گزری ہے اور عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود پاک چین دوستی اپنی جگہ پر مستحکم رہی ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ چین کے تعلقات بھی بہت اچھے نہیں ہیں لیکن پاکستان اور چین کی دوستی اور تعلقات کی بنیاد بھارت کی مخالفت کبھی بھی نہیں رہی ۔ پاکستان تمام دنیا میں تیسرا اور مسلم دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے 1950 میں چین کو تسلیم کیا۔ اس کے اگلے ہی برس پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقا ت قائم ہو گئے۔ شروع کے دس برس پاک چین تعلقات اچھے ہونے کے باوجود ایک جانب پاکستان امریکہ کے زیر سایہ دفاعی اتحادوں (SEATO,CENTO) کا رکن بنا تو چین اور بھارت میں ’’ ہند چینی بھائی بھائی ‘‘ کے نعرے بھی سنائی دیتے رہے ۔ 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد پاک چین تعلقات میں نئی قربتیں پیدا ہوئیں اور آنے والے سالوں میں دنیا نے دو ممالک کے درمیان دوستی کے تعلقات کی نئی معراج دیکھی۔
امریکہ سے کبھی دوستی اور کبھی ’’اہم اتحادی‘‘ ہونے کے دعویٰ کے باوجود پاکستان نے چین کو ہمیشہ اپنا قابل اعتماد دوست قرار دیا ہے۔ حکومتی سطح کے علاوہ پاکستان اور چین کی عوام کے درمیان بھی دوستی کا ایک جذباتی رشتہ قائم ہے ۔ 1963میں ایک معاہدے کے تحت چین نے 1942 مربع کلو میٹر کا علاقہ پاکستان کے حوالے کر دیا اور اس کے بدلے میں پاکستان نے شمالی کشمیر اور لداخ کے علاقے میں ہزاروں کلومیٹر کے علاقے پر چین کا حق تسلیم کر لیا اور اس کے بعد پاکستان اور چین میں کوئی ممکنہ تنازعہ باقی نہ رہا۔ ( یاد رہے کہ بھارت اس معاہدے کی مخالفت کرتا ہے اور اسکا دعویٰ ہے کہ لداخ جموں کشمیر کا حصہ ہے۔) 1971 میں ہنری کسنجر نے پاکستان کی مدد سے چین کا خفیہ دورہ کیا جس کی وجہ سے اگلے برس امریکی صدر رچرڈ نکسن کا دورہ چین ممکن ہوا ، جس کے بعد چین اور امریکہ کے تعلقات کا آغاز ہوا اور چین کے لیے بیرونی دنیا کے دروازے کھلے۔
اتنی دہائیوں پر محیط وسیع تعلقات اور گہری دوستی کے تناظر میں چین کی جانب سے اس قسم کے اعلان کو بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف بھارت کی اہم سفارتی فتح قرار دے رہا ہے۔ اس برس پاکستان کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن ظاہر ہے کہ اگلی کسی کانفرنس میں بھارت کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کو نام لے کر دہشت گردی کا ملزم ٹھہرایا جائے۔
اس مشترکہ بیان میں مندرجہ بالا اعلانات سے بھی زیادہ تشویش ناک اعلان شق نمبر 40 میں کیا گیا ہے لیکن پاکستان کا میڈیا اور وزارت خارجہ اس بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ شق نمبر40 میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل میں ’’ وسیع اصلاحات ‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ یہ ادارے مزید موثر ہو سکیں، اور ان میں ترقی پزیر ممالک کی نمائندگی بڑھ سکے، اور یہ کہ چین اور روس، برازیل، جنوبی افریقہ اور بھارت کی اقوام متحدہ میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنے کی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ بھارت اقوام متحدہ میں کونسا زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہتا ہے؟ کہیں یہ مستقبل میں ان تین ممالک یا ان میں سے کسی کے لیے سیکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کے لیے چین اور روس کی حمایت کی جانب اشارہ تو نہیں ہے؟ کیا مستقبل میں اقوام متحدہ کی پالیسی پاک چین تعلقات پر اثر انداز ہو گی؟
اقوام متحدہ تو امریکہ اور یورپ کی مرضی کے مطابق بہت سی قرار دادیں منظور کر لیتی ہے۔ یا پھر چین کی اپنی پالیسی کچھ تبدیل ہو رہی ہے اور اسے CPEC کامیابی کے لیے ایک مکمل محفوظ پاکستان بھی چاہئیے اور اس تجارتی راستے پر تجارت کے لیے دیگر ممالک کی خوشنودی بھی درکار ہے؟ وجہ جو بھی ہو اب پاکستان کو اپنے داخلہ مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی واضح اور جارحانہ انداز اپنانا ہو گا اور آنے والا وقت ہمارے دفتر خارجہ کے لیے کڑے امتحان کا وقت ہے۔

ڈاکٹر احمد سلیم

ڈاکٹر احمد سلیم

epaper

ای پیپر-دی نیشن