نواز شریف کی واپسی پاکستانی سیاست کیلئے اچھا شگون، مشرف کے حوالے سے سوالات اٹھیں گے
لاہور (محمد دلاور چودھری) سابق وزیراعظم نواز شریف کا وطن واپس آ کر مقدمات کا سامنا کرنے کا فیصلہ یقیناً سیاسی طور پر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس فیصلے سے انکی سیاسی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ اس کے علاوہ سیاسی قوتوں کے اس دعوے کو بھی تقویت ملے گی کہ سیاستدان آمروں کے مقابلے میں عدالتوں کا زیادہ احترام کرتے اور عدالی فیصلے تسلیم کرتے ہیں۔ غالباً نواز شریف نے یہ محسوس کیا ہے کہ بیرون ملک رہ کر اور عدالتوں میں پیش نہ ہو کر ان کا جی ٹی روڈ والا وہ موقف کمزور پڑ رہا ہے جس کی بقول ان کے این اے 120 کے ووٹرز نے تائید کی ہے تاہم انہیں اپنے اس فیصلے سے قید و بند جیسی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ کل نیب کا وکیل یقیناً پھر سے ان کے وارنٹ گرفتاری کی استدعا کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس بار یہ استدعا منظور ہو جائے۔ پنجاب، بلوچستان اور مرکز میں انکی اپنی پارٹی کی ہی حکومت ہے اور سینٹ سے پاس ہونے والے بل کے بھی (جو کہ قومی اسمبلی سے باآسانی دوبارہ منظور ہو جائے گا) وہ پھر سے مسلم لیگ ن کے سربراہ بن کر اپنی گرفت اس پر مضبوط رکھ سکیں گے۔ اس سے قید کی مشکلات کی شدت کم ہو گی لیکن نواز شریف اور انکی پارٹی کو یہ بات بہرحال مدنظر رکھنا ہو گی کہ جے آئی ٹی کے فراہم کردہ مواد، سپریم کورٹ کے نگران جج کی موجودگی اور اس کے علاوہ ان کے لئے نسبتاً نرم گوشہ رکھنے والے چیئرمین نیب کی 10 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کیلئے اس کیس میں اپنا دفاع کرنا آسان نہیں ہو گا۔ (اور اب تو تحریک انصاف، متحدہ پاکستان کے مشترکہ اپوزیشن لیڈر کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو اگلا چیئرمین نیب مقرر کرنے کا اختیار کم از کم پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل کر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے پاس بھی چلا جائے گا اور انکی چوائس کافی مختلف ہو گی) اگر نواز شریف نے مستقل طور پر واپس آ کر تمام صعوبتیں برداشت کرنے کی ٹھان لی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس سے سیاسی قوتوں اور اداروں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھے گا کہ جب آصف زرداری کے بعد نواز شریف بھی اپنے خلاف مقدمات میں عدالتوں کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں تو سابق آمر پرویز مشرف کیوں نہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر جو بیانیہ پیش کیا تھا اسے مدنظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ واپس نہ آتے تو انکی سیاست کو نقصان ہوتا لیکن اب سیاسی طعنے پذیرائی میں بھی بدل سکتے ہیں۔
اچھا شگون