• news
  • image

’’تعلیمی معیار اور غیر منصفانہ نظام ‘‘

کسی بھی ملک کی ترقی اور اُس کے معاشرے کی فلاح وبہبود کا انحصار بنیادی طور پر ایک ٹھوس اور فعال تعلیمی اور تربیتی نظام پر منحصر ہے۔ اس ضمن میں ملکی صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے ۔ کیونکہ ہمارا خواندگی کا معیار بہ زوال ہے۔ نتیجتاً تکنیکی اور صنعت وحرفت سے لیس (Work Force) یعنی کارکنان کی کمی عمل میں آ رہی جو ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک وجود میں آنے والی تمام حکومتوں نے تعلیمی نظام کی اصلاح اور ترقی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور وہ اُن کی ترجیحات میں مکمل طور پر ناپید رہی۔
کسی بھی حکومت نے قطع نظر کہ وہ فوج یا سیاست کی پیداوارتھی اس اہم مسئلے کی اہمیت کومستقل طور پر نظر انداز کیا۔ تعلیمی ترقی کے فقدان کے باعث پاکستان دن بدن عالمی سطح پر معاشی طورلحاظ سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے جہاں اختراع اور جدت (Key Stone) یعنی کلیدی اور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے یہ سب محب وطن افراد کا فرض ہے کہ ہم اپنی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ملک میں تعلیمی (Emergency) یعنی ہنگامی صورت حال کا اعلان کرے اور اُس سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے۔
برصغیر پر انگریزوں کے دور اقتدار میں تعلیمی ترقی کو مکمل طورپر نظر انداز کیا گیا۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ ہڑپ کر لیا جاتا اور اسے دیگر کاموں میں مثلاً فوج کی نقل و حمل ، ریلوے لائن بچھانے کے لیے استعمال کیا جاتا جو کہ مختلف علاقوں میں بغاوت اور شورش کو فرو کرنے کے لیے ضروری تھا۔ برطانوی حکومت کی تعلیم کے حوالے سے یہ تباہ کن حکمت عملی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی تھی اور نتیجتاً تعلیم کا حصول عوام الناس کے لیے ایک خواب ہی رہا۔
آزادی کے بعد قائم ہونے والی تمام حکومتوں نے بھی اس اہم مسئلے پر مکمل کوتاہی کا ثبوت دیا اور ملک میں اس وقت دو مختلف نظام قائم ہیں ایک جو کہ (Matriculation) یعنی دسویں جماعت اور گیارہویں / بارہویں (Intermediate) پر اور دوسرا O& A Level پر مشتمل ہے اور یہ غریب ،متوسط ،امرا اور دولت مند افراد کے درمیان بٹا ہوا ہے۔المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد جو بھی حکومت آئی اور جو وزراء مختلف شعبہ جات کے لیے منتخب کیے گئے۔ اُن کا اُس شعبے سے دوردور تک نہ کوئی تجربہ اور نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے یہ سب سلطنت کی بندر بانٹ کا نتیجہ ہوتا ہے جو شخص پارٹی کو جتنا زیادہ چندہ دیتا ہے اُس کے حصے میں اُتنی بڑی وزارت آتی ہے۔ہمارے سیاست دان ابھی تک اُسی انگریز پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ قوم کو ذہنی طور پر غلام بنا کر رکھا جائے۔کیونکہ ان کے خیال ان میں اگر ہمارے قوم کو شعور آ گیا تو ہماری خوردبرد کرنے کے راستے بند ہو جائیں گے اور قوم کو شعور صرف اور صرف تعلیم سے آ سکتا ہے۔عالمی سطح پر شائع ہونے والی Golbal Competitive Report کے مطابق 2016-17 میں 138 ممالک میں سے پاکستان 122 ویں نمبر پر اور ہم اس طرح ہم جنوبی ایشیاء میں سب سے نچلے درجے پر آتے ہیں۔
بھارت تو کسی حد تک سمجھ بھی گیا اس لیے سنبھل بھی گیا اور اُس کی داستان ہر جگہ بڑی آب و تاب سے جاری و ساری ہے اب اپنے پاکستان میں ہمارے سمجھنے کی باری ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب Islam Democracy & West میں بڑے واضح انداز میں تعلیمی شعبے کے ضمن میں ہماری کوتاہیوں کا ذکر کیا ہے۔ جو 21ویں صدی کے آغاز سے ظہور پذیر ہوا ہے۔ وہ اس اہم پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ہمارے دفاعی اخراجات تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم سے 1400فی صد زیادہ ہیں بقول اُن کے ہمارے پاس ٹینک اور دیگر فوجی اسلحہ تو وافر مقدار میں موجود ہے لیکن تکنیکی مہارت اور اس کے لیے دی جانے والی تعلیم کو مکمل طور پرنظر انداز کیا جا رہا ہے نتیجتاً عالمی سطح پر کام کرنے کے لیے ہماری (Work Force) یعنی افرادی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی سطح پر Spanish زبان میں کثیر تعداد میں مختلف اہم موضوعات پر لکھی ہوئی دوسری زبانوں پر مشتمل کتابوں کے ترجمے کئے گئے ۔ جب کہ تمام مسلم ممالک میں اس قسم کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ یہ روایت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ نا صرف پاکستان بلکہ باقی تمام اسلامی ممالک قرآن پاک کے اول ترین حکم ’’اقرا‘‘ یعنی پڑھو کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
گورنمنٹ کے انتظام کے تحت چلنے والے سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ خاص طور پر گائوں اور دور دراز علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں نا چار دیواری ہوتی ہے اور نہ دوسری ضروری سہولیات مثلاً بجلی ، پانی اور بیت الخلاء وغیرہ کا مکمل فقدان ہے۔ Ghost Schools یعنی جو صرف کاغذات کی حد تک محدود ہیں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح Ghost teacher کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ جن کی تنخواہ وغیرہ حکومتی خزانے سے تو ادا کی جاتی ہے مگر وہ بدعنوان افراد کی جیبوں میں جاتی ہے۔
قارئین! کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ترقی کی وجہ سے پوری دنیا ایک Gobal Village یعنی سکڑ گئی ہے اور اب عالمی سطح پر ترقی کرنے کے لیے اخترع ، تجرباتی تحقیق اور نئی ایجادات ہی کسی ملک کی ترقی کی اصل بنیاد ہیں۔ماہرین تعلیم ملکی ترقی کے خواہاں افراد حکومت پر لگاتار زور ڈال رہے ہیں کہ وہ تعلیم کے لیے GDP کا خطیر حصہ مختص کرے۔ نیز قومی تعلیمی پالیسی کو بھرپور اور موثر طریقے سے عملی طور پر نافذ کیا جائے اور تعلیمی ویثرن VISION 2030 کے مقاصد کی متواتر نگرانی کی جائے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں متعدد قابل ستائش ، مفید اور قابل عمل IDEAS یعنی منصوبے موجود ہیں۔
فی الوقت حکومت کے لیے یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنا تو ممکن نہیں لین واحد Curriculum یعنی نصاب تعلیم متعارف کروا دینا قابل عمل تجویز ہے ۔ اس کے نتیجے میں دہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے ساتھ کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ تکنیکی فن سے لیکن(work force) یعنی افرادی قوت تیارکرے جو کہ نہ صرف ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کر سکے۔ جس سے ملک تیزی سے ترقی کرے گا اور خوشحالی آئے گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن