• news
  • image

افغانستان میں بھارت کا کردار قبول نہیں

پاک افغان تعلقات کی تاریخ کبھی بھی خوش نما یا قابل رشک نہیں رہی۔ شاید اس کے پس منظر میں سرحدی گاندھی کا پاکستان مخالف کردار اور افغانستان پر کیمونسٹ نظریات کے حامل طبقہ کا غلبہ تھا۔ کیونکہ ظاہر شاہ سمیت افغان حکمران کیمونسٹ خیالات کے پرچارک تھے۔ حفیظ اللہ امین ببرک کارمل ، نور محمد ترکئی سب ماسکوکے آشیر واد پر نازاں تھے۔ سو ویت یلغار کے موقع پر پاکستانی قوم نے جس قدر بہادری اور جذبہ ایمانی سے افغان بھائیوں کی صرف پشت پناہی ہی نہیں کی بلکہ ہر پیرو جواں اس کی حفاظت کے لئے کابل کا رخ کرنے کو بے تاب تھا۔ تیس لاکھ مہاجرین کا گذشتہ 35سال سے اپنی معیشت پر بوجھ جذبہ انسانی کے تحت خوش دلی سے برداشت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان اشرافیہ نے اپنا قبلہ ماسکوسے بدل کر پنٹاگون بنالیا ۔ پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کو یکسر فراموش کرکے بھارتی اشاروں پر ناچنے لگے۔ پاک افغان سرحد پر بھارتی کونسل خانے قائم کرکے دراندازی کا بھیانک کھیل جاری ہے ۔طوطا چشمی کی یہ کہانی صرف افغان کٹھ پتلی حکمرانوں تک محدود نہیں۔ ہم اگر افغان پالیسی پر 2012ء کے ٹرمپ بیانات پر نظر ڈالیں تو امریکی فوجوں کے انخلاء کے داعی دکھائی دیں گے۔ ان کا تازہ موقف ان کی کمزور اور دوہری شخصیت کا عکاس ہے۔ جناب ٹرمپ صرف صدر اوبامہ کی پالیسیوں پر تنقید ہی نہیں فرماتے تھے بلکہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے سب سے بڑے پرچارک تھے۔ اپنی تقاریر میں اکثر کہتے ہیں کہ ہم ان افغانوں کو تربیت کیوں دیں جو بعدمیں ہمارے ہی فوجیوں کو پیچھے سے گولی مار دیتے ہیں۔ وہ کہتے کہ اب گھر واپسی کا وقت آگیا ہے۔ یہ وہ دن تھے جب صدر ٹرمپ عوامی امنگوں کے ترجمان اور نگہبان ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ جب انہیں زمینی حقائق دکھائی دیتے تھے اور عوامی جذبے سنائی دیتے تھے ۔ یقینا انہی خیالات اور منشور کے باعث انہیں عوامی حمایت حاصل تھی۔ مگر وائٹ ہائوس پہنچنے کے بعد وہ پنٹاگون کی آنکھ سے دیکھنے اور زبان بولنے لگے۔ اس کا ثبوت جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کے حوالے سے پنٹا گون کا تیار کر دہ سکرپٹ پڑھتے ہوئے آنکھیں شرمائیں نہ زبان لڑکھڑائی۔ صدر ٹرمپ کی طرح امریکی وزیر خارجہ نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے پاکستانی امداد کی بندش اور نان نیٹو اتحادی کے مقام سے بھی ہٹانے کا عندیہ دیا ۔ جس کے ردعمل میں پوری پاکستانی قوم ایک صفحہ اور ایک صف میں متحد ہو کر امریکی پالیسی کو مسترد کرتی دکھائی دی۔ وطن عزیز کا سیاسی عسکری اور پارلیمانی سطح پر سخت رویہ نظر آیا۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا کہ یہ ہمیں مالی اور عسکری امداد نہیں بلکہ ہمارے کردار پر اعتماد اور قربانیوں کا اعتراف درکار ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی بننے کی بھاری قیمت اد اکی۔ اس دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا جبکہ امریکہ کے صرف 23 سو فوجی ہلاک ہوئے اور ہماری معیشت نے 130 ارب ڈالر کا خسارہ بھگتا ۔ پنٹاگون کے رویہ کے برعکس امریکہ میں موجود اعتدال پسند طبقہ پاکستان کی گراں قدر قربانیوں کا معترف ہے۔ امریکی کانگریس کے رکن سینیٹر ٹم کین کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی عوام اور فوج کو دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو سراہتے ہیں اور پاکستان کو اس جنگ میں اہم اتحادی مانتے ہیں۔ ٹم کین کے علاوہ دیگر امریکی سینیٹر بھی اس پالیسی سے نمایاں اختلاف کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی اس پالیسی کو نا پسند کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے چین ایران ترکی جا کر اپنا موقف بیان کیا۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں جنوبی ایشیا خصوصی پاک افغان دہشت گردی کے متعلق ٹرمپ پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ افغانستان کا فوجی حل نہیں اس کے لئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے تمام ٹھکانے افغانستان میں ہیں جبکہ پاکستان پر الزام لگانا تکلیف دہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ داعش، القاعدہ، طالبان پاکستان ان سے منسلک دیگر دہشت گرد تنظیموں کا افغانستان سے خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغان اپنے معاملات خود طے کریں۔ آج دہشت گردی کے خلاف کوئی ملک جنگ کر رہا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔ امریکہ کو بتایا دیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کا فوجی یا سیاسی کردار قبول نہیں کرے گا۔ چین روس ترکی او رایران دہشت گردی کے خلاف خطے کی صورتحال میں پاکستان کے موقف کے حامی ہیں کیونکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا آپریشن کیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان افغان جنگ میں قربانی کا بکرا نہیں بنے گا نہ یہ جنگ اپنی سرزمین پر ہونے دے گا۔ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر او ربائونڈری لائن پر بھارتی جارحیت کے لئے خصوصی ایلچی نامزد کرنے کی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے امریکی نائب صدر، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دیگر ممالک کے قائدین اور عالمی اداروں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتیں کرکے اپنا موقف واضح کیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے افغان صدر نے خطاب میں امریکی نئی پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ چاہتے ہیں۔ امریکہ کی نئی پالیسی طالبان کے لئے پیغام ہے کہ قیام امن کے لئے جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر آئیں۔
قارئین کرام! اقوام عالم کے سامنے وزیر اعظم پاکستان اور ان کے وفد کا واضح موقف ایک خودمختار اور آزاد مملکت کا عکاس ضرور ہے مگر ہم پر لازم ہے کہ بیرونی امداد اور قرضوں سے مکمل طور پر نجات حاصل کرتے ہوئے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر خود انحصاری کی شاہراہ پر گامزن ہوں۔ مملکت خداداد بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آئی ہے ۔ اس کی بقا ء استحکام اور خوشحالی کے لئے ایثار اور اخلاص کے جذبے کو عام کرنا ہوگا تب ہی منزل مقصود تک رسائی ممکن ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن