نئے عام انتخابات بہت ضروری ہو گئے ہیں
NA-120میں مقابلہ کڑا بھی تھا اور کڑوا بھی ۔ بھٹو کی پارٹی نے 1414ووٹ لئے ۔ مولانا مودودی کی جماعت بمشکل 592کے ہندسے تک پہنچ پائی ۔ وقت بڑا ظالم ہے ، اسے مذاق کی سوجھی ۔ وہ اس ضمنی الیکشن میں ان دونوں کی ــ"شاندار" کارکردگی پرپوچھنے لگا ۔ بول تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ ابھی جواب نہیں آیا تھاکہ میرے ذہن میں شاعر لاہور کا یہ شعر گدگدانے لگا۔
یہ تیرے دوست تجھے دفن کیوں نہیں کرتے
شعیب فوت ہوئے تجھ کو اک زمانہ ہوا
پھر مجھے یاد آنے لگا ۔اس حلقہ میں 2013کے الیکشن میں بھی ان دونوں جماعتوں کی ضمانتیں ہی ضبط ہوئی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے 2604 ووٹ لئے تھے جبکہ جماعت اسلامی 952ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی ۔ خیر اس سے ہمیں کیا لینا دینا۔ ورثاء موقعہ پر موجود ہوں تو تکفین و تدفین خالصتاً انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اس ضمنی انتخاب میں امیدواروں کی تعداد خلاف معمول غیر معمولی تھی ۔ 44عدد امیدوار عام طور پر کسی قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کسی ایک حلقہ سے نہیں ہوتے ۔ سونگھنے کی تیز حس رکھنے والے اس تعداد میں کسی سازش کی بو سونگھ رہے ہیں۔ الیکشن میں 7130ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر لبیک یارسول اللہؐ جماعت کے شیخ اظہر آئے ہیں۔ اس جماعت کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کی پھانسی پر اعتراض ہے ۔ مولانا رضوی کا پورا موقف بیان کرنے کیلئے اعتراض بہت ناکافی لفظ ہے ۔ وہ پوری دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ ایک اسلامی مملکت میں سلمان تاثیر کے قتل کا مقدمہ اولاً درج ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ وہ اس قتل کو سرے سے کوئی جرم نہیں مانتے۔ ان کے مطابق اگر کسی ریاستی مجبوری کے باعث مقدمہ درج کرنا ضروری بھی تھا ،تو درج کرنے کے بعد اسے بھی فیصلہ طلب ہزاروں مسلوں کے انبار میں کہیں دبا دیاجاتا۔ ایسا کرنے میں کونسی قیامت آجاتی ۔ اگر کسی جج نے بین الاقوامی مجبوری کے تحت ممتاز قادری کو پھانسی کا حکم سنا ہی دیا تھا تو کم از کم پھانسی کے حکم پر عملدرآمد ہی نہ کیاجاتا۔ عدالتی فیصلوں کی عملدرآمد کیلئے عمر نوحؑ چاہئے ۔ یہاں اتنی جلدی کیا پڑ گئی۔ پھانسی کے فیصلہ پر جھٹ پٹ عملدرآمد میں کیا ’’کافرانہ‘‘ مجبوری تھی ؟ ممتاز قادری کو پھانسی میاں نواز شریف کے دور میں دی گئی ۔ سو مولانا رضوی کے سارے غیض و غضب کا نشانہ میاں نواز شریف ہیں۔ ان حالات میں مولانا رضوی کے پیروکار ن لیگ کے امیدوارکو ووٹ ڈالنے سے تو رہے ۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں اگر ان کا امیدوار شیخ اظہر کھڑا نہ ہوتا تو یہ 7130ووٹ بھی پی ٹی آئی کے کھاتے میں جانے تھے ۔ ن لیگی حلقوں کے بقول ملی مسلم لیگی امیدوار ان کے ووٹ خراب کرنے کیلئے خفیہ طاقتوں نے کھڑا کیا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ لبیک یا رسول اللہؐ جماعت کا امیدوار کس نے کھڑا کیا تھا ؟ ہمارے الیکشن کچھ اپنا ہی مزاج رکھتے ہیں۔ کوئی امیدوار الیکشن جیتنے کیلئے میدان میں اترتا ہے ۔ کوئی امیدوار کسی طاقتور امیدوار کی ٹانگیں کھینچنے کیلئے کھڑا کیاجاتا ہے ۔ مجھے اس الیکشن میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والے دونوں امیدواروں کا یہی رول نظر آتا ہے ۔ تیسرے نمبر پر لیبک یا رسول اللہؐ جماعت اور چوتھے نمبر پر ملی مسلم لیگ کے امیدوار آئے ہیں۔ 70ء کے عام انتخابات کی طرح اس ضمنی انتخاب کے بھی ہماری سیاست پر دور رس اثرات ہونگے۔ 2013میں میاں نواز شریف ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلہ میں 40ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے ۔ اب یہیں سے ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلہ میں محترمہ کلثوم نواز محض 14000کی برتری سے کامیاب ہوئی ہیں۔ پھر اپنی شکست پر ڈاکٹر صاحبہ کو بے شمار تحفظات بھی ہیں۔ انہوں نے ریٹرننگ آفیسر محمد شاہد کی جانب سے فارم 16پر جاری کیا گیا سرکاری نتیجہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔انہیں ان 29000ووٹوں پر بھی اعتراض ہے جن کا بائیو میٹرک اندراج موجود نہیں۔ اس ایک بات سے سارا الیکشن سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے کہ اس حلقہ میں 39پولنگ اسٹیشنوں پر بائیو میٹرک مشینوں کا بندوبست تھا۔ ان میں سے 38 پولنگ اسٹیشنوں سے ڈاکٹر یاسمین راشد جیتی ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر یاسمین راشد کا مطالبہ تھا کہ 29ہزار ووٹوں کی تصدیق کے فیصلہ تک نتیجہ روک دیا جائے ۔ لیکن ریٹرننگ آفیسر نتیجہ کے اعلان پر مجبور تھا۔ NA-120کی نشست میاں نواز شریف کی عدالتی نا اہلی سے خالی ہوئی۔ ن لیگ ایک انتخابی جماعت ہے ۔ جبکہ پی ٹی آئی ابھی تک محض ایک احتجاجی جماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ن لیگ نے میاں نواز شریف کی متوقع نا اہلی کے فیصلہ کے پیش نظر بہت پہلے سے ہی ’’انتخابی بندوبست‘‘ شروع کر دیئے تھے ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق یہاں سے پی ٹی آئی کے 15ہزار پکے ووٹ’’ حلقہ بدر‘‘ کر دیئے گئے ۔ پھر یہ کام اتنی دیدہ دلیری سے کیا گیا کہ ان پندرہ ہزار’’ حلقہ بدر ‘‘ووٹوں میں پی ٹی آئی کی ممبر صوبائی اسمبلی شینا رت کا نام بھی شامل ہے ۔ ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم بھی ڈاکٹر یاسمین راشد کی نسبت بہت پہلے شروع کر دی تھی ۔ میاں نواز شریف کا مری سے موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ کے راستے لاہور پہنچنے کا فیصلہ ایک انتخابی فیصلہ تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشدکی انتھک انتخابی مہم کے سب حلقے معترف ہیں ۔ وہ محلہ محلہ پھریں اور گلی گلی گھومیں۔ہردروازہ کھٹکھٹایا۔ایک اک بندے سے رابطہ کیا اور عمران خان کا پیغام پہنچایا۔ پی ٹی آئی کی انتھک نظریاتی کارکن محترمہ عندلیب عباس قدم قدم ان کے ساتھ نظر آئیں۔ صوبائی اوروفاقی وسائل کے خلاف اتنی ہی جنگ لڑی جا سکتی تھی جتنی ڈاکٹر یاسمین راشد نے NA-120کی گلیوں بازاروں میں لڑی ۔ یہ ایک مہمل سا سوال ہے : کیا کسی قومی اسمبلی کے ایک حلقہ کے 61745ووٹرز سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟مزے کی بات یہ ہے کہ اس حلقہ میں کاسٹ ہونے والے کل ووٹوں کی تعداد 126860ہے ۔ اس کا نصف بھی 63430بنتا ہے ۔ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا کہ محترمہ کلثوم نواز ڈاکٹر یاسمین راشد کے حاصل کردہ 47099ووٹوں کے مقابلہ میں 61745ووٹ لیکر کامیاب قرار دے دی گئی ہیں۔ ن لیگ کی اس کامیابی کو’’ فیصلے پر فیصلہ‘‘قرار دیا جارہا ہے ۔ یعنی NA-120کے 61745ووٹروں نے سپریم کورٹ کا میاں نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ مسترد کر کے ایک نیا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اس میں کچھ اور بھی اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ’ عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے ۔اب عمران خان کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کو توہین عدالت پر سپریم کورٹ میں لے جائیں‘۔خاقان عباسی سرے سے نواز شریف کی نا اہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکاری ہیں۔رانا ثناء اللہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے بہر حال آسمانی صحیفے نہیں ہوتے ۔ عقیدت بھی کیا اندھی شے ہے ۔ پڑوسی ملک میں گرو گورمیت رام رحیم کے پیروکار بھی کچھ ایسی ہی ہانکے چلے جا رہے ہیں۔ ’’دانشورانہ‘‘ بحث مباحثہ کے ایسے غیر سنجیدہ ماحول میں کالم نگار سہیل وڑائچ نے نئے انتخابات کیلئے ایک معقول آواز بلند کی ہے ۔ اس وقت پوری قوم ایک ذہنی خلجان میں مبتلا ہے ۔ ملک ایک سنگین بحران سے دوچار ہو گیاہے ۔ ان حالات میں حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی مفادات کو پارٹی مفادات پر ترجیح دی جائے ۔اسطرح ن لیگ پر لازم ہے کہ وہ مارچ میں آنے والے سینٹ کے انتخابات میںاپنی کامیابی کا’’ لالچ ‘‘چھوڑ کر صرف قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اسمبلیاں توڑ کر فوری انتخابات کا اعلان کر دے۔