• news
  • image

میر بلخ شیخ مزاری اور جنوبی پنجاب

مکرمی! سابق وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کا مضمون ”جنوبی پنجاب صوبہ وقت کی ضرورت“ کے عنوان سے مو¿قر اخبار روزنامہ نوائے وقت 20 ستمبر 2017ءکی اشاعت میں شائع ہوا، مضمون پڑھ کر شعر یاد آیا ”برسوں کی اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں، ہم آج تیرے لب سے ادا ہونے لگے ہیں“ خوشی اس بات کی تھی کہ کسی جاگیردار کو وسیب کا دکھ یاد تو آیا۔ اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ مضمون نوائے وقت، ایسے مو¿قر اخبار میں آیا جس کی پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت چٹان کی طرح مضبوط ہے، مجھے میر بلخ شیر مزاری کے ان خیالات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے سے وفاق مضبوط ہوگا اور چھوٹے صوبوں کا احساس کمتری ختم ہوگا۔ دارالحکومت کی قربت سے لوگوں کو آسانی میسر آئے گی، لوگوں کے مسائل حل ہونگے، طلبہ کو سہولت میسر آئے گی، فنڈز الگ مختص ہونگے اور گڈ گورننس پیدا ہوگی۔سرائیکی خطہ کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا تھا ،2 جون 1818ءرنجیت کے قبضے سے پہلے سرائیکی وسیب کی صوبہ ملتان کی شکل میں اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنا صوبہ اور اپنی پہچان تھی ، کوئی شخص اگر ملتان کی بجائے سرائیکی کو وجہ تنازعہ بنانے کی کوشش کرے میں بتا دوں کہ پنجاب بھی کوئی صوبہ نہیں تھا یہ صوبہ لاہور تھا۔ اس کا ذکر میر صاحب نے خود بھی کیا ہے کہ صوبہ لاہور کو انگریزوںنے صوبہ پنجاب کا نام دیا ۔ میر بلخ شیر مزاری جاگیردارکلاس میں با خبر سیاستدان ہیں، خاندانی رکھ رکھاﺅ اور وقت کی پابندی جیسے اوصاف بھی قابل قدر ہیں ،آپ نگران وزیراعظم بھی بنے ، آپ کو مسائل کا بہت ادراک ہے،ان کو قوموں کے تہذیبی مسائل کا بھی ادراک ہے مگر وہ سرائیکی سے اندر خانہ بغض رکھتے ہیں اس لئے آپ ہمیشہ سرائیکی سے جاگیرداروں والا سلوک کرتے ہیں، بدقسمتی سے ان کا معاملہ شتر مرغ والا ہے، ووٹ لینے کا وقت آتا ہے تو وہ سرائیکی بن جاتے ہیں اور الیکشن کے بعد وہ بلوچ سردار بن جاتے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی انسان کی قومی پہچان ایک ہی ہوتی ہے۔ اب ان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بلوچستان جاتے ہیں یا سرائیکستان میں رہتے ہیں۔ (ظہور دھریجہ) 

ڈاک ایڈیٹر

ڈاک ایڈیٹر

epaper

ای پیپر-دی نیشن