وزیراعظم کا حسن کارکردگی، اور ان پر اعتراضات
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس پاکستان کیلئے نعمت عظیم بن کر آیا ہے۔ اسکی ایک وجہ کسی ٹیکنوکریٹ، باصلاحیت و فعال وزیراعظم کا جنرل اسمبلی اجلاس میں خطاب کرنا بھی ہے۔ اس سے پہلے ایسے ہی اجلاس میں ایک دوسرے وزیراعظم کا خطاب سامنے آیا تھا مگر ”وہ“ خطاب اور ”یہ“ خطاب بنیادی فرق بھی ساتھ لایا ہے۔ ماضی کے خطاب میں اس وقت کے وزیراعظم کا لہجہ، مورال اور انداز تکلم دلیرانہ اور جارحانہ نہ تھا بطور خاص اب کے اجلاس میں ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کا خطاب دلیرانہ بھی تھا اور جارحانہ بھی، بھارت کے حوالے سے پاکستانی مفادات کی جنگ جنرل اسمبلی میں بھرپور طریقے سے لڑی گئی ہے ماشاءاللہ پورے ملک میں وزیراعظم کی تقریر کو نہایت پسند کیا گیا ہے اور انکی نہایت عمدہ کارکردگی پر اطمینان کا بار بار اظہار ہوا ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں ”بھارت نے جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ اب قربانی کا بکرا نہیں بنیں گے نہ پاکستان افغان جنگ اپنی سرزمین پر لانے دے گا۔ افغانستان میں ناکامی کا ملبہ ہم پر نہ ڈالا جائے۔ بھارت کشمیر میں جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ دنیا کو کنٹرول لائن کی صورتحال خطرناک ہونے سے بچائے۔ جوھری اثاثے نا گزیر اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں“۔ یہ سب باتیں عالمی فورم پر ہونا ہماری شدید ضرورت تھی۔ خطاب سے پہلے جناب وزیراعظم نے نمایاں عالمی راہنماﺅں سے ملاقات کیں۔ امریکی ادارے فاون پالیسی میں اسکالرز سے بھی خطاب کیا۔ ایک بڑے اخبار سے بات چیت کی تاکہ ”فضا“ انکی ”متوقع“ تقریر کیلئے منتظر رہے۔جناب وزیراعظم کی حسن کارکردگی پر ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جناب شاہد خاقان عباسی اور جناب جنرل باجوہ ”ہم آہنگی“ کا بہت عمدہ نمونہ پیش کرکے دنیا پر پاکستان موقف کو بروقت واضح کر چکے ہیں البتہ کچھ ناقدین نے جناب وزیراعظم کے مورال، روئیے اور لباس پر غیر ضروری اعتراف کیے ہیں۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم کا ٹائی نہ لگانا انکے ”اطمینان قلب“ اور ”طبعی بے خوفی“ کا اظہار تھا کہ وہ اپنی فطرت کے مطابق اپنے ”موڈ“ کو نارمل سمجھتے ہیں۔ نارمل انداز میں امریکی نائب صدر سے ملتے اور بات چیت کرتے ہیں۔ جس میں اس انداز میں فطری پن نظر آیا ہے۔ یہ اعتراض کہ وہ ”ڈیپریس“ سے تھے غلط ہے۔ حضور وہ تو تدبر و فراست کو استعمال کرتے ہوئے .... موقف پیش کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ماضی کی طرح ”چٹیں“ بھی نہیں تھیں بلکہ اپنے حافظے اور ذہن کی مدد سے اطمینان سے بات چیت کر رہے تھے۔ شخصی ملاقاتوں میں رویہ ٹھنڈا اور دھیما رکھا جاتا ہے۔ عوامی یا عالمی اجتماع میں جہاں ضرورت ہو رویہ و لہجہ دھیما اور جہاں ضرورت ہوبلند اور جارحانہ اپنایا جاتا ہے۔ انفرادی سطح، یا فارن پالیسی یا شخصی ملاقاتوں میں فطری مطلوب روئیے کو وہ اپنائے ہوئے تھے۔ لہذا ان پر اعتراضات بے وزن ہیں۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انہوں نے امریکی سرزمین پر کسی بھی انداز میں پاکستان کی اندرونی سیاست کا تذکرہ نہیں کیا۔ جبکہ ہمارے سابق وزیراعظم یہ نا پسندیدہ کام اکثر بیرونی سرزمین پر دھڑلے سے کرتے اور دنیا پر پاکستانی قیادت کی نا پختگی کو ظاہر کرتے رہے تھے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے وزیراعظم کی تقریر کے جملے ” بھارت نے جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا“ کی بروقت امریکی سر زمین پر پوری طرح وضاحت کر دی کہ ”بھارت نے کولڈ سٹارٹ کیا تو پاکستان ہارٹ سٹارٹ ہو جائیگا“۔ وزیراعظم نے افغانستان میں بھارتی کردار کو قبول کرنے سے اپنی تقریر میں انکار پیش کیا تھا تو وزیرخارجہ نے عمدگی سے اس کی بھی وضاحت کر دی ۔ جناب وزیراعظم نے اندرونی سیاست کے تذکرے سے سخت اجتناب کرکے اپنے پختہ کار ذہن پیش کیا مگر پاکستانی میڈیا سے بات چیت میں ایک صحافی نے غیر ضروری طور پر ”لچ“ تلا کر آپ کابینہ میں تبدیلی کر رہے ہیں؟ یہ سوال امریکی سرزمین پر صحافتی امانت و دیانت سے شدید متصادم تھا۔ اب وزیراعظم کا منصب، کام، فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے اپنائے گئے کچھ رویوں کا تنقیدہ جائزہ، جناب وزیراعظم بیرون ملک گئے ہی تھے کہ ایک نہایت مقبول اینکرپرسن ، ایڈیٹر، کالم نگار جو ماضی میں نواز شریف کے عشق میں آخر مبتلا رہتے تھے جناب وزیراعظم کو ناکام، انکی خلاقی گرفت کو ناکام قرار دیا اور انہیں ایسی بیوی ثابت کیا جس کے پانچ شوہر ہیں۔ ان کے نزدیک اس وقت جناب عباسی سے عوامی حمایت یافتہ وزیراعظم نہیں بلکہ عوامی سطح پر مقبول ترین راہنما عمران خان ہیں لہذا فوراً انتخابات کروا کر اقتدار عمران کو منتقل کیا جائے تاکہ مشرقی پاکستان میں عوامی قیادت (شیخ مجیب) کو اقتدار نہ ملنے کا عکس پاکستان میں دوبارہ سے سامنے نہ آئے۔ پہلے تو ہم اس اصولی اور فکری تبدیلی ذہن پر خوب ہنسے کہ بظاہر نواز شریف کا اقتدار دائمی پر ختم محسوس ہوا تو دانشور نے فوراً پینترا بدلا اور اب عمران خان کو ”جٹ جپھا“؟
وزیراعظم کو ناکام اور انکی حکومتی گرفت کو بہت کمزور ثابت کرنا بھی شائد انکی مجبوری ہوگا۔ اسی اخبار میں ایک کالم نگار نے 23 ستمبر کو قبل از وقت انتخابات کیوں اور کیسے؟ کالم لکھ کر فوراً نئے انتخابات کا دورہ دیا ہے۔ مگر یہ سب کچھ صرف ایک میڈیا پلیٹ فارم سے ہی کیوں شروع ہوگیا؟ ہم پہلے کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ جناب عباسی نے سازش کرکے وزارت عظمیٰ حاصل نہیں کی بلکہ وفاداری ہمیشہ کی ہے حالانکہ انہیں شدید مشکلات و آلام سے بھی دو چار ہونا پڑا۔
استدعاءہے کہ جناب عباسی کو کچھ مدت برداشت کر لیا جائے ورنہ سب کو اندازہ ہے۔ فوراً انتخابات کا امکان ہے نہ ہی استحکام کا وجود، جناب عباسی سے گزارش ہے کہ انکی حسن کارکردگی،نیک نامی ، ریاست اور عوام کی شدید ضرورت کے لئے وہ جو کچھ کریں گے وہی تاریخ میں درج ہوگا۔ ان کے پاس مختصر مدت ہے۔ چند ماہ کی حسن کارکردگی کئی سالہ اقتدار سے بھی زیادہ موثر اور مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ گریڈ 22 میں ترقی کے لئے صرف ”استحقاق“ اور ”اہلیت“ کو سامنے رکھیں بلکہ ماضی کی لسٹوں کو نظر انداز کردیں۔ میرٹ، اہلیت، ریاست، وفاداری اور ایثاروقربانی کی تاریخ کو اہمیت دیں۔ ”بلیک میلروں“ سے تو ہرگز ڈرنے کی ضرورت نہیں ان کاعہد ختم ہو چکا ہے۔