• news
  • image

تھوڑا سا سمندر

کچھ یادیں اور باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔دل ودماغ پر تادیر اثر رکھتی ہیں،یہی یادوں کی بارات اور یادگاروں کے مینار ثابت ہوتی ہیں۔گزشتہ دنوں نوائے وقت کے منفرد اسلوب کے حامل کالم نگاربرادرم اجمل نیازی کے کالم کا سہ لفظی جملہ دماغ میں پیوست اور دل پر چسپاں ہوکررہ گیا۔”تھوڑا سا سمندر“
یہ جملہ اپنے اندرگہرائی اور گیرائی کا اپنے مفہوم کی طرح ایک قلزم لئے ہوئے ہے۔کیا تھوڑا ساجہاں،تھوڑا ساآسماں،تھوڑا ساچاند ،تھوڑا ساسورج،تھوڑی سی جنت اور تھوڑا ساپاکستان ہوسکتا ہے؟اگر نہیں تو پھر تھوڑا سا سمندر کیسے ہوسکتاہے؟؟۔اجمل نیازی نے اپنے کالم میں اس کا تذکرہ ایسے دیدہ زیب پیرائے میں کیا کہ یہ پیرا گراف لافانی و لاثانی ہوگیا۔الفاظ کے موتیوں کوپرو کر ہاراور وہ بھی صدابہاربنانے کا فن جاننے والے اجمل نیازی جن کانام بھی جمال کی علامت ہے لکھتے ہیں۔”کراچی سے آنے والی بہت ممتاز اور نامور شاعرہ فاطمہ حسن کے ذکر سے مجھے بہت خوبصورت شاعرہ اس سے بھی بڑی پروڈیوسر ریڈیو پاکستان لاہور عبیدہ سید یاد آ گئیں۔ وہ آج کل لندن میں ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ کراچی جا رہے ہو تو وہاں سے میرے لیے تھوڑا سا سمندر لے آنا۔ میں کراچی میں پریشان تھاکہ کیسے سمندر لے جاﺅں وہ بھی تھوڑا سا۔ فاطمہ حسن سے ملاقات ہوئی، انکی شاعری سنی۔ جب واپس لاہور آیا تو میرے ساتھ بہت سا سمندر تھا“۔ اجمل نیازی نے تھوڑا سا سمندر کو استعارے کے طور پراستعمال کیا ہے۔استعاروں کے ذریعے ستاروں پر کمند ڈالی جاسکتی ہے،کہکشائیں ارضِ ہموار وناہموار پر لائی جاسکتی ہیں،پہاڑکورائی،دریاﺅں کودوپاٹ کیا جاسکتاہے،تھوڑا سا نہیں بہت سا سمندر دل میں بسایا جا سکتا ہے پھر اس کو کراچی سے لاہور ہی نہیں دنیا کے دوسرے کونے تک لے جایا جاسکتا ہے۔آقائے نامدار کی خدمت اقدس میں دیدہ ¿دل فرش راہ اورحرم کعبہ میں جبینِ نیاز سے ارض مقدس پر سجدے بکھیر کر واپس آنےوالے رحمتوں اور برکتوں کے ایک نہیں کئی سمندر ساتھ لئے ہوتے ہیں۔ ارضِ مقدس کی بات کریں تو ارضِ پاک کا تذکرہ نہ ہو یہ ناممکن ہے۔دونوں میں کئی مشترکات اور مماثلات ہیں۔ پاکستان ریاستِ مدینہ کے بعد پہلی نظریاتی ریاست ہے، اس کا ستائیسویں رمضان المبارک اور جمعة الوداع کو معرضِ وجود میں آنا اتفاق نہیں، قدرتِ کاملہ کی ایک بہترین پلاننگ ہے۔اللہ رب العزت نے پاکستان تا قیامت قائم رہنے کیلئے بنایا مگر ہم نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث آپس میں سرپھٹول کرتے ہوئے اسکے دوٹکڑے کرادئیے،جو باقی بچا اس کی حفاظت کیلئے بھی وہ اتحاد ویگانگت،یکجہتی اور یکجائی نہیںجق اسکی سلامتی اور سا لمیت کا تقاضہ ہے۔آج ایک طرف کوئی اقتدار پانے اورکوئی دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے کے خبط میں اخلاقیات کا جنازہ نکالنے تو کیا جان تک لینے پر تلا نظر آتا ہے۔ آج برداشت،تحمل اور بردباری سیاست دانوں کے کردار میں نہیں صرف کتابوں اور نصابوں میں ملتی ہے۔الفاظ وہی ہیں مگر مفہوم بدل گئے ہیں،انصاف کو ظلمت کہا جارہا ہے،احتساب کو انتقام باور کرانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہاہے۔نااہلیت نے اہلیت کو دبوچ لیا ہے۔کتنے فخر سے کہا جارہا ہے کہ ہم نے نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کی ترمیم منظور کرلی ہے ۔آج جوجتنا زیادہ جھوٹا اتنا ہے عزت دار،جو جتنازیادہ کرپٹ اتنا ہی بڑا نامدار ہے۔مگر سچ کے علمبردار اس دورِ بے حسی و بے کسی میں موجود ہیں۔سچ کو سچ کہتے ہیںاور ظلمت کو ضیاءکہنے اور لکھنے پر تیار نہیں۔مجھے جہاں جالب کے اشعار یاد آرہے ہیں۔
ظلمت کو ضیاءصر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گ±ہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہ±ما کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائینگے سب پروردہ¿ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائینگے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاءصر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ان میں سے کچھ شعر تو ایسے ہیں جولگتاہے کہ آج کی سیاسی صورتحال اور سیاستدانوں کے کردار اور حکمرانوں کے آمرانہ رویوں پر لکھے گئے ہیں۔ آج سیاست میں ”میں نہیں تو کوئی اور بھی کیوں“ کا رویہ کارفرمانظرآتا ہے۔اداروں کو اپنی خواہشات پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جارہا۔ بیان پاکستان کے حالات پر دیاجاتا ہے جسے بھارت میں پزیرائی ملتی اور پاکستان کےخلاف استعمال کیا جاتاہے۔ آج پاکستان میں سب سے زیادہ قد آور شخصیات میں میاں محمد نواز شریف،عمران خان اور آصف زرداری ہیں۔اقتدار انہیں تین کے گرد گھومتا ہے۔اقتدار کی منزل تک پہنچنے کی حسرت وآرزو رکھنے والے انکے گرد گھومتے ہیں اور ان میں سے اکثر چاپلوسی اور کاسہ لیسی میں آداب سیاست کو بھول کر اخلاقیات کی تما م حدیں منہدم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہ تک بھول جاتے ہیں کہ انکے لیڈر کی شان وشکوہ پاکستان کی بدولت ہے۔پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
سپریم کورٹ نے ایک سال کی تحقیق،تفتیش اور سماعت کے بعد صفائی کا پورا پورا موقع دیتے کے بعد میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا،وہ گھر چلے گئے تاہم ان کی پارٹی کی حکومت ہے،کابینہ انکی مرضی کی ہے۔اکثر وزراءاپنے عہدوں کو اللہ کی عنایت نہیں نواز شریف کی دین سمجھتے ہیں۔ وہ ریاست کے اہم منصبوں پر بیٹھ کر اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگااس پر بھارت نے پاکستان کے ادروں پر دہشتگردوں کی حمایت اور پشت پناہی کا الزام لگا کر دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔چودھری نثار اس پر بولے تو وزیرخارجہ احسن اقبال نے بُرا منایا،خواجہ آصف کے مو¿قف کی تائید کی جس پر چودھری نثار کو پھرکہنا پڑا کہ آرمی چیف دنیا کو ڈومور کا کہہ رہے ہیں اور ہمارے وزیر خارجہ وداخلہ پاکستان کو ڈو مور کا کہتے ہیں اور بھارت ایسے بیانات کو سب سے زیادہ اچھال رہا ہے۔ وزیراعظم خاقان عباسی نے بھی گھر کو درست کرنے کا بھاشن دے کر حق نمک ادا کرنے کی کوشش کی۔یہ لوگ عدلیہ اور فوج پر برس رہے ہیں، اپنے اداروں پر کیا دنیا میں حکمران اس طرح وار کرتے دیکھے گئے ہیں؟ حلقہ این اے 120لاہور کا الیکشن معرکہ حق و باطل کی طرز پر لڑا گیا مریم نواز بہرحال مبارکباد کی مستحق ہیں انہوں اپنی والدہ کلثوم نواز کو جتوانے میںبڑی محنت کی۔ہم پہلے ہی یاسمین راشد کے مقابلے میں کلثوم کے جیتنے کی پیشگوئی کردی تھی،جس کا ذکر جناب اجمل نیازی نے اپنے ایک کالم میں بھی کیا۔الحمدللہ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی۔
نواز شریف وطن لوٹ آئے،مریم نواز نے انہیں نیب کورٹ میں پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا تھاجو پارٹی رہنماﺅں کے اجلاس میں مسترد کردیا گیا۔عدالتوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ درست ہے مگر نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کی ترمیم سے جگ ہنسائی ہورہی ہے۔اگر میاں نواز شریف اس ترمیم سے استفادہ کرتے ہیں تاحیات زیر تنقید اورتضحیک رہیں گے۔ایسی ترمیم انکے نادان بہی خواہوں نے انکی بدنامی کیلئے کردی اور پھر جس طریقے سے ترمیم کی گئی وہ بھی باوقار نہیں ہے۔بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ میاں نواز شریف کی نااہلیت ختم کرانے کی کوئی سبیل نکالتی۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

epaper

ای پیپر-دی نیشن