• news
  • image

ٹریفک پولیس کیلئے چیلنجز

چوک فقیروںسے آزاد کروانے سے معذوری
ٹریفک پولیس کے متعلق ایک اچھی خبر گردش کر رہی ہے کہ وارڈنز کو باقاعدہ پولیس فورس میں ضم کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک وارڈنز اپنی اٹھارہ بیس سال کی تعیناتی سے دو پھول سجائے کام کر رہے تھے اور ترقی کی راہیں مکمل مسدود تھیں جس سے اُنکی کارکردگی پر منفی اثرات پڑنے شروع ہو چکے تھے۔جب یہ فورس تشکیل کی گئی تو ان میں لگن، جذبہ اور فرائض منصبی کی ادائیگی قابل تعریف تھی انکی سخت محنت سے لوگوں نے لین اور ٹریفک کے اشارے اور دیگر ضروری لوازمات پر عمل پیرا ہونا شروع کر دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کا چہرہ دیکھنا ہو اُسکے عوام کی تنظیم دیکھنی ہو اس کا اندازہ ٹریفک کی روانگی سے لگا لیں اب ہماری شتر بے مہار ٹریفک کیا تاثر دیتی ہے اس کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔ آج کے وارڈنز کا حال کچھ یوں ہے کہ چماروں کے گھر میں جب کوئی غیرچمار دلہن آتی ہے تو ایک عرصہ وہ شکایت کرتی ہے کہ آپکے گھر سے بُو بڑی آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اُس کا دماغ اُس بُو سے مانوس ہو جاتا ہے۔ پھر وہ کہتی ہے دیکھا جب سے میں آئی ہوں میں نے اس گھر کی بُو ختم کر دی ہے۔ ٹریفک وارڈنز جب شروع شروع میں آئے تو اِن کو ٹریفک کی روانی میں بے ترتیبی نظر آئی اُنہوں نے انتہائی جانفشانی اور خوش اخلاقی سے ٹریفک کی روانی کو سیدھا کیا اور پھر آہستہ آہستہ شاید اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر وہ سو گئے۔ سرکاری ملازم کو جب تک اُس کا مستقبل تابناک نظر نہ آئے اُنکی کارکردگی بہتر نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس میں سارا قصور ٹریفک وارڈنز کا ہی نہیں ہے کچھ ہم بھی جانگلی صفتیں رکھتے ہیںصبر ہم میں ہے ہی نہیں اور ٹریفک رولز کو توڑنا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ یورپ کو چھوڑو عرب کے بدو سدھر گئے لیکن ہم نہیں۔ پاکستان کی ٹریفک تب تک درست نہیں ہوگی جب تک تمام صحافی، سیاستدان، پولیس حکام، وکلاءاور دیگر بااثر طبقے جو وارڈنز کو قانون شکنوں کی طرف سے موقع پر ملائے گئے موبائل پر بڑے لوگوں کا وارڈنز کو ڈرانے دھمکانے اور نہ کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ایسے لوگوں کا ڈبل چالان ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری ٹریفک پولیس بھی بزدلی اور خوف کی فضا سے نکل کر اپنی ساکھ کو نہ صرف بحال کریں بلکہ بہتر کریں۔ موٹروے پاکستان کا ہی حصہ ہے وہ عام آدمی کی بات چھوڑیں بیوروکریٹس،ججوں یہاں تک کہ وزیروں کیا سپیکر نیشنل اسمبلی کا بھی چالان کر لیتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا۔ یہ سب موٹروے میں تعینات کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک لوگوں نے ارادے اعصاب اور دل مضبوط رکھے اور نتائج سے لاپرواہ رہے۔وہ دھمکیاں اور خطرناک انجام کے الفاظ سے نہ صرف نبرد آزما ہوتے ہیں دماغ ٹھنڈا رکھتے ہیں اور مزاج برہم نہیں ہونے دیتے کسی کے عہدے سے مرعوب نہیں ہوتے اپنے فرائض کی بجاآوری انتہائی تندہی بلاخوف اور ایمانداری سے کرتے ہیں چھوٹی موٹی یابڑی ترغیب کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ ٹریفک کادباﺅ کراچی، حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ،پشاور میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے شہر بھی ٹریفک کے رش اور بے ربطگی کا شکار اور شہری پریشان ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو بھاری جرمانے اور اُن ک ریکارڈ اُنکے لائسنس پر درج ہو تین چار چالانوں پر لائسنس کینسل کر دیا جائے نیز ایک دن سے ایک ہفتہ جیل کی ہوا کھلائی جائے تو یہ علاج تیر بہدف ہوگا۔لوکل ادارے جن میں میونسپلٹیز، کارپوریشنز اور کنٹونمنٹ بورڈز شامل ہیں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہیں۔ اُن کا عملہ تہہ بازاری ہر شہر سے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ اکٹھا کر رہا ہے۔ تمام سڑکیں جو بہت کشادہ ہیں لیکن فٹ پاتھ، دکانوں، ورکشاپوں کا حصہ بن چکے ہیں اب تو سڑکیں بھی شامل کر لی گئی ہیں۔ ٹریفک کی روانی کیسے ہو۔ عملہ تہہ بازاری والوں کے ٹرک سڑکوں سے صرف اُن ریڑھیوں کو دکھاوے اور کارروائی کیلئے اُٹھاتے ہیں جو اُن کو دیہاڑی نہیں دیتے اور جو دیتے ہیں اُن کو چھاپے سے ایک دن قبل عملہ آگاہ کر جاتا ہے لہٰذا وہ محفوظ رہتے ہیں۔ یہ قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے ہی غیرنمونہ نمبر پلیٹوں کے نمونے والوں کو ٹریفک وارڈن یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ Excise کا کام ہے۔ اب جیسے محکمہ فوڈ والے اچانک ہوٹلوں پر چھاپے مارتے ہیں ایسے ہی ایڈمنسٹریشن والے بازاروں میں اچانک چھاپے ماریں جہاں جہاں ایسے قبضے ہیں اُس علاقے کے عملہ تہہ بازاری ،کونسلر، متعلقہ تاجر کو موقع پر سزا دیں پھر دیکھیں ٹریفک کی روانی۔ ٹریفک پولیس کبھی کبھی جاگتی ہے لبرٹی مارکیٹ میںٹریفک اصولوں کی پابندی کے دس پمفلٹ بانٹ کر فوٹو اُتاری جاتی ہے سمجھا جاتا ہے کہ سب لوگ انکی ہدایات پر عمل پیرا ہوںگے۔اب ایک نظر لاہور میں رجسٹر ہونے والی گاڑیوں کی تعداد نیز روزانہ کی بنیاد پر دوسرے شہروں سے لاہور میں آمدورفت کے پیش نظر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جس کا حل یہ ہے۔
-1ٹریفک پولیس آج تک چوکوں میں کھڑے بھکاری جو لوگوں کو نوچتے، کاروں کے شیشے ٹھک ٹھکاتے بددعائیں دیتے، کرائے کے شیرخوار بچوں کے ساتھ تپتی دھوپ میں، ٹھٹھرتی سردیوں میں مانگتے ہیں۔ فقیروں کو چوکوں سے نہ ہٹانے پر لوگوں میں جو چہ مگوئیاں ہیںوہ ٹریفک پر بہت بڑا الزام ہے۔بھلے وہ کہتے رہیں کہ یہ ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔ -2ٹریفک لائن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ -3لال پیلے اشارے صرف 20% لوگوں کی تعمیل کےلئے ہیں اور اگر پولیس والا ڈیوٹی پر نہیں تو یہ 15% ہو جاتی ہے۔ -4لوگ رات کو فل لائٹ استعمال کرتے ہیں۔ -5سرخ بیک بتی اکثر غائب ہے۔ -6 بڑی تعداد میں APL گاڑیوں پر روک تھام نہیں۔ -7موٹر سائیکل کی رجسٹریشن کا رواج کم ہے۔ -8سائیڈ مرر کوئی لگاتا نہیں۔ -9ون وے کی خلاف ورزی بلاخوف کی جاتی ہے۔ -10بغیر سٹاپ ویگنیں، رکشے جہاں دل آئے بریکیں لگا دیتے ہیں اور سپیڈنگ پر کوئی چیک نہیں۔-11ڈیوٹی آور لمبے ہونے کی وجہ سے وارڈنز ڈیوٹی کے قریب سایہ ڈھونڈھ کر موبائل پر کھیلتے رہتے ہیں۔-12چنگ چی اور دوسرے رکشے مادر پدر آزاد ہیں بیس بیس سواریاں لادتے ہیں کوئی خوف نہیں۔-13گندی اور دھواں دینے والی گاڑیاں سائلنسر نکالے موٹر سائیکلیں دندناتی پھرتی ہیں۔-14موٹر سائیکلوں پر دودھ ڈھونے والے بارہ بارہ برتنوں میں دس دس من دودھ لادتے ہیں اور اپنی جان اور دوسروں کے لئے خطرہ بنے رہتے ہیں۔-15پچاس فیصد موٹر سائیکلیں بغیر نمبر اور لائسنس چلائی جاتی ہیں۔ ڈرائیوروں کی تربیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔-16گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون کا استعمال اور نمبر ملانا مہلک حادثات کا باعث بن رہا ہے ہر سال سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ لہٰذا دوران سفر ڈرائیور کے لئے موبائل فون کا استعمال نہ صرف قطعی ممنوع بلکہ بھاری جرمانہ ہو۔ ہماری قوم بے حسی کی طرف رواں ہے اب ان پر لیکچر اور تبلیغ یا پھر سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہیں۔-17پوری مہذب دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹریفک لائسنس جاری کرنے کےلئے ڈرائیونگ سکول قائم کئے جائیں اور لائسنس حاصل کرنے کےلئے اُس ادارے سے تربیت کا حصول لازمی ہو اور ٹریفک لائسنس جاری کرتے ہوئے ٹریفک پولیس اس امر کو یقینی بنائے کہ متعلقہ شخص نے واقعی اور باضابطہ تربیت حاصل کی ہو۔-18موٹر سائیکل اور رکشہ پر سخت پابندی لگائی جائے کہ وہ صرف سڑک کے بائیں جانب چلیں۔قانون شکنی کا تدارک کرنے کیلئے جب تک جنگی بنیادوں پر ہنگامی انتظامات نہیں کئے جائینگے حالات سدھرنے کی بجائے دن بدن دگرگوں ہوں گے۔
چونکہ پولیس جواز پیش کرتی ہے کہ عملے کی کمی ہے تو اس کا حل ہے کہ بوائے سکاﺅٹس، قومی رضاکاروں، ریٹائرڈ ملازموں اور سینئر سیٹینز کو مدد کیلئے پکارا جائے۔ اُن پر اعتماد کر کے ہزاروں لوگوں کو بااختیار کریں وہ چالان کرسکیں کچھ تو روک لگے اور اگر پھر بھی یہ کنٹرول سے باہر رہیں تو ٹریفک کنٹرول کو پرائیویٹائز کر دیا جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن