سیاسی عاشق معشوق، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور پیام زینبؓ
برادرم خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ نواز شریف اور چودھری نثار کے درمیان بات چلتی رہتی ہے۔ دونوں عاشق معشوق کی طرح ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ دونوں میں عاشق کون ہے اور معشوق کون ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تفریق ہی غلط ہے۔ دونوں عاشق ہوتے ہیں اور معشوق بھی ہوتے ہیں۔
نواز شریف حکومت میں چودھری نثار ہمیشہ وزیر بنے اور وہی واحد آدمی ہیں جنہوں نے وزیر بننے سے انکار کیا۔ استعفیٰ بھی دیا۔ وہی ہیں جنہوں نے نواز شریف سے اختلاف بھی کیا مگر انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ دوستی کو ہر طرح سے نبھانا چاہتے ہیں۔ کیا نواز شریف بھی ایسا چاہتے ہیں۔
نواز شریف ان سے دوستی کا اعلان کرتے ہیں مگر کبھی انہیں وزیر خارجہ نہیں بنایا بلکہ یہ منصب اپنے پاس رکھا۔ اس صورت میں یہ اہم شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اور پھر خواجہ آصف کو وزیر خارجہ بنا دیا؟
خارجہ امور میں بھارت بھی آتا ہے اور مودی نواز شریف کا یار ہے۔ مودی ان کی نواسی کی تقریب میں بغیر ویزے کے آیا تھا۔ ایک انڈین عہدیدار کے آنے پر مریم نواز نے کہا تھا کہ ان سے ہمارے خاندانی مراسم ہیں؟ ان کے لیے چودھری صاحب کے تحفظات جائز ہیں۔
شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ہیں جبکہ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم میں نہیں ہوں وزیراعظم نواز شریف ہیں۔ آج کل ہمارے وزیراعظم وہ ہیں جو وزیراعظم نہیں ہیں؟ اس کی کوئی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے۔ چودھری نثار سیاست میں موروثی روایت کے خلاف ہیں۔ انہیں شہباز شریف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ چودھری نثار ڈٹ جانے والے آدمی ہیں مگر مروت بھی ان کے مزاج میں ہے۔
وہ پریس کانفرنس سے پہلے کسی اور موڈ میں ہوتے ہیں مگر وہ پریس کانفرنس میں وہ نہیں کہتے جو انہیں کہنا چاہیے تھا۔ یا وہ کہنے والے تھے۔ اس طرح لوگ بدمزہ ہوتے ہیں۔ بے مزہ تو خود چودھری صاحب بھی ہوتے ہونگے۔ بدمزہ اور بے مزہ میں فرق ہے۔
نجانے کب سے ملیحہ لودھی امریکہ میں ہیں اور پاکستان کے سفارتی معاملات پورے کرتی ہیں۔ وہاں کوئی بھی امریکہ کی رضا مندی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لودھی صاحبہ کی سفارت کاری اتنی کارآمد ہے کہ دونوں ملک ان سے خوش ہیں مجھے ان کا ایک جملہ پسند آیا ہے:
”بھارت جنوبی ایشیا میں دہشت گردوں کی ماں ہے۔“ شکر ہے آج کل نواز شریف وزیراعظم نہیں ورنہ مودی کے یار نواز شریف کو غصہ آتا اور پھر کیا ہوتا؟
٭٭٭٭٭
کیپٹن صفدر جب بولتے ہیں تو مختلف بولتے ہیں۔ آج کل وہ بہت سرگرم ہیں مگر وہ کبھی نواز شریف کے سامنے نہیں آتے؟ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار پر اولیااللہ کا سایہ ہے۔ اسے روحانیت بچا رہی ہے۔ آج ڈار صاحب جس بے بسی سے احتساب عدالت جا رہے تھے انہیں کیپٹن صاحب کی دعاﺅں کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
چودھری شجاعت نے کہا کہ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار جائیں یا نہ جائیں وہ خزانہ خالی کر چکے ہیں۔ اب اس خزانے کے لیے لوگوں کے پاس سوائے مکھیاں مارنے کے کچھ نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭
نواز شریف کی پریس کانفرنس کے لیے ایک دوست نے خوب تبصرہ کیا
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
آج کل پھر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ کمال کی بہن ہیں۔ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ ابھی ابھی کسی نے بتایا ہے کہ صدر اوبامہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کرنے والے تھے مگر طارق فاطمی اوبامہ سے ملنے کی بجائے صدر ٹرمپ کے لوگوں سے رابطہ کرتے رہے۔
کسی پاکستانی حکومت نے ایک بار بھی رسمی سفارتی طور پر امریکہ حکومت کو خط نہیں لکھا۔ ایک زمانے میں صحافی انصار عباسی نے اس حوالے سے حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بہت کوششیں کی گئیں۔ کبھی وہ مجھے ملے تو میں اس سے پوچھوں کہ یہ کالم اس نے کس کے لیے لکھے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ کے لیے یا نواز شریف کے لئے؟
٭٭٭٭٭
مجھے جامعہ امام خمینی ماڑی انڈس میانوالی سے ایک زبردست رسالہ ملا ہے۔ ”پیام زینب“ مجھے حضرت زینب علیہ السلام سے بڑی عقیدت ہے۔ انہوں نے واقعہ کربلا کے بعد جو تقریریں کیں وہ تاریخ کربلا اور تاریخ اسلام کی شان ہیں۔ اس رسالے کی مدیر اعلیٰ سیدہ وجیہہ زہرا نقوی اور مدیر صفدر حسین ڈوگر کربلائی ہیں۔ یہ محرم کا ایک بے مثال تحفہ ہے۔