سید محمد وجیہ السیماءعرفانی چشتی
تا قےامت قطع اِستبداد کرد
سےدنا حسےن ؓابن علیؓ ، امام بھی ہےں ، شہےد بھی ،وہ حضرت سےدہ فاطمة الزہرا ؓکے نور ِ نظر ہےں ، وہ سےد نا علی المرتضیٰ ؓکے فرزند ہےں ، وہ خاتم الانبےاءکے نواسے ہےں ، وہ امام حسن مجتبےٰ کے بھائی ہےں ، وہ خانوادہ اہل ِ بےت کے چراغِ روشن ہےں ، وہ اہل ِ حق کی صفوں مےں چشم ِ بےنا ہےں ، وہ منزل ِ عرفان مےں رہنمائے خےر ہےں ، وہ محفلِ علم و آگہی مےں سردفترِ کمال ہےں۔ وہ شرف کا پےکر ، وہ عزت کا جمال ، وہ توقےر کی آبرو، وہ تمکنت کا مےنار ، وہ تسلےم کا حاصل ، وہ صبر کا مفہوم ِ روشن ، وہ رضا کا معنی تاباں ، وہ استقامت کا حرف ِےکتا ، وہ استقلال کا مرجع ِ تعبےر ، وہ حق آگاہی کا کمال ، وہ فضائے اخلاص کا آفتاب ، وہ دلوں کا نور ،وہ ضمےر کی صدائے حق ، وہ اےمان کا ربط ِ تکرار ، کےف ِ سعادت ان سے وابستہ ، جمالِ جاں اُن سے منسوب ، جہان ِ تقدےس مےں ان کی فرماں روائی۔
شاہ است حسےن ، پادشاہ است حسےن
ہمارے لئے ، اہل ِ اےقان کے لئے ، پوری کائنات کے لئے ان کا عزم و عمل ،ان کا اےثار و ےقےن ، ان کا کردار و ہ درس ِ لازوال ہے ، کہ ہمےشہ کے لئے آزادی و حرےت ، اسلام و اےمان ، جذبہ و اےثار کی منزل منزل کا نشان ِ نور ہے۔ ےہ وہ مقام ہے جہاں عشق او ر حق ، باہم وہی تعلق رکھتے ہےں ، جو لفظ و معنی اور مفہوم و تعبےر مےں ہوتا ہے۔
جب حضرت ابراہےم ؑ کے پروردگار نے چند خاص باتوں مےں ان کو جانچا ، تو حضرت ابراہےم ؑ نے انہےں پورا کر دکھاےا ، اللہ تعالیٰ نے فرماےا مےں آپ کو ساری کائنات کا امام بنانے والا ہوں۔
حضرت ابراہےم ؑکے کردار مےں ہے حضرت اسماعےل ؑ کا ذبےح اللہ ہونا ، نمرود سے مقابلہ ، صر ف بت پرستی ہی کی نہےں ، بلکہ بُت سازی کی شکست ، دہکتی آگ مےں کود جانا ، آسمان و زمےن کی ملکوت پر نگاہ ، تعمےر کعبة اللہ ، مقام ِ حرم کے لئے طواف کی صدا ، اور اس کردار کے صلے مےں حضرت اسماعےل ؑ کی اولاد مےں ان کا تشرےف لانا جو خاتم ِ مُرسلاں ہےں ، خدائے واحد کی کبرےا کا شہود ، بت شکنی کے ساتھ اللہ احد کا نعرہ ، آتش ِ سوزاں کا گلزار بننا ، آزادی و حرےت کی اقدار کا بلند ہونا او ر سجود ِ بندگی کا کےف ِ باقی۔
ےہ تھی وہ کےفےت ِ کردار کہ حرف ِ امامت جس کی تفسےر تھا۔ ضرت ابراہےم علےہ السلام نے الشعرائ۔ ۴۸ میں دعا کی تھی۔ الہٰی مےر ی بات کی سچائی کی نمود ، ان مےں رکھ دے ، جو آخر مےں آنے والے ہےں۔ اور حق تعالیٰ نے اس پورے کردار کے لئے ارشاد فرماےا۔ الصافات۔ ۷۰۱،۸۰۱)ہم نے ان کی جگہ اےک عظےم قربانی مہےا کی اور ہم نے کردار ِ خلےل کو اُن کے لئے باقی رکھ چھوڑا ہے ، جو آخر مےں آنے والے ہےں۔
تعمےر کعبہ جس مضمون کا عنوان تھا معرکہ کربلا اس کی تعبےر رہی ، آتش وگلزار کے درمےان جو اَن کہی بات تھی ،عمل ِ شبےری اس کا اظہار ہوا ، اور زبان ِ صدق جس کا مبتدا تھی ، حسےن ؑ کی شمشےر تابدار اس کی خبر ثابت ہوئی ، ےہ تھا عمل ِ امامت کا وہ کردار جو حضرت ابراہےم ؑ نے امانت چھوڑا ، اور صبر ِ حسےن ؑ اس کی ادا بن کر نمودار ہوا۔
حضرت امام حسےن ؓکے پورے کردار ، ےعنی رزم ِ خےرو شر ، مقابلہ حرےت و محکومی اور معرکہ کربلا کے پورے معاملے کو سمجھنے کے لئے اےک بنےادی نکتہ ےہ پےش ِ نظر رکھنا چاہےے کہ دےن اسلام کا اپنا اےک منفرد اسلوب ہے ، وہ اس کا ےہ نظرےہ ہے کہ کوئی بات ےا اسلام ہے ےا اسلام نہےں ، دےن ِ اسلام مےں نہ کوئی بات شک مےں ہے ، نہ الجھن مےں ، نہ اس کے اصولوں سے انحراف مےں اسلام ہوتا ہے ، نہ اس کے مزاج مےں کسی دوسری بات کے دخےل ہونے سے اسلام باقی رہتا ہے ، اس معےار اور اسلام کی اساسی تعلےم کو پےش رکھ کرحسینؓ و ےزےد کے کردار متعےن ہوتے ہےں ،اسلام اور نا اسلام ، حق اور باطل ، انہی کی عملی تعبےر ہے حسےن ؑ اور ےزےد۔ حضرت امام کا ےہی وہ عمل ِ لازوال ہے کہ انسانےت کے لئے رہنما اور اسلام کے لئے حےات تازہ ہو کر رہا۔ راکب روش ِ رسول ، زہراؓ کا لال ، حےدر ِ کررؓ کا سپوت ، حضرت ابراہےم ؑ کے لہو اور حضرت اسماعےل ؑ کے خون کا محور ،حسینؓ اسی اسلام کا نقےب اور داعی ہے۔ قافلہ دےن ِ اسلام کا وہ امام ، اسی اسلام کو ےزےدی ےورشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اٹھتا ہے تو اےسے عزم و استقامت کے ساتھ کہ روح القدس ہمےشہ کے لئے اس کا اسلامی ہے۔
اس عزم و عزےمت کے ساتھ اس شہزادہ عالی مقام کے قدم بڑھتے ہےں اس مےدان ِ قتال کی جانب جس کا نام زمےن کربلا ہے
حضرت حسینؓ ےہ عزم و عمل عےن ِ حق ہے۔ ےہ اسلام ہے ، ےہ دےن ہے اور ےہی اسلام ہے۔ حکومت کی طلب ہو تو اس کے لئے ہزاروں تدبےرےں کارگر ہوتی ہےں ،اقتدار چاہےے تو عقل و دانش اس کے لئے سوراہےں تےار کرتی ہے ، جاہ و حشمت کی ہوس ہو تو سو دوزےاں کے ہزار گوشے ہےں ، سلطنت کی خواہش ہو تو نظم و لشکر تےار ہوتے ہےں ، دنےا کی طلب ہو تو اس کے عشوہ واوا کی فراوانےاں ہوتی ہےں ، لےکن حسین ؓسلام کے لئے ہے ، حسین ؓ دےن کے لئے ہے ، حسےن ؑ حق کے لئے ہے۔
امام ِ عالی مقام صرف ستر ےا بہتر قدسی نفوس کو ساتھ لے کر مےدان ِ کربلا مےں دےن و دےں پناہ بن کر ےزےد کی ان تمام قوتوں کے مقابل برسر ِ پےکار آتے ہےں ، جو ” رشتہ قرآن “ کو توڑ کر ” عقل ہوس پرور “ کی پرداخت ہےں۔ حضرت حسین ؓوہ ذات ِ عالی ،کہ روئے زےبا پر امامت کا جمال ہے ،جبےن ِ نور پر سےمائے سجود ہے ، دوش ِ استقامت پر امت ِ خےرالوریٰ کی ذمے داری ہے ، دست ِ کرامت مےں شمشےر حق ہے ،نگاہ عصمت مےں اےمان ِ کائنات کی حفاظت ہے ، معرکہ کربلا مےں نکلتے ہےں ، خانوادہ رسالت کا خون ےزےدی تلواروں سے حق پرستی کی شہادت لےتا ہے ، معصوم شہزادوں کے گلوئے انوار ، اور باحق ساتھےوں اور عزےزوں کے پاک جسموں سے خون ِ رگِ رسول بہتا ہے ، اس طر ح حسینؓ شمشیر ِ حق کو بے نےام کرتے ہےں او
اور مکان و لامکاں ، زمےن و زماں پھر وہ عالم بھی دےکھتے ہےں کہ وہ امام عالی ،کہ تےغ ِ حق جس کے دست ِ جہاں کُشا سے ےزےدےوں کو فرعون و نمرود کی صفوں تک پہنچا کر اسلام کا پرچم بالا کرتی ہے ، لشکر ِ باطل کے ہاتھوں سرفرازی کے اس مقام ِ بلند کے لئے بڑھتے ہےں جس کے لئے آوازہ قدس ےہ ہے۔ (البقرہ۔ ۴۵۱)ےعنی وہ جو اللہ کے لئے اللہ کے کام کی خاطر ، دےن ِ حق کے لئے ، اقدارِ اسلام کی سربلندی کی خاطر ،برائے حق ، قتل کر دےے جائےں انہےں مردہ مت کہو ، وہ واقعی زندہ ہےں ، تمہی کو اس کا شعور نہےں ہے۔
شہادت ِ حسےن ؑ حق ہے کہ وہ برائے حق ہے ، ےزےدےوں کے ہاتھوں قتل ِ حسےن ؑ ، باطل کے ہاتھوں حق پرستی ، حق پسندی ، حق نگاہی اور حق آگاہی کے پےکر کے خلاف وہ معرکہ ہے کہ دےن ِ اسلام کو جس کی تابانےوں پر ناز ہے ، ےہ ہے حسےن ؑ کا کردار
جب تک لفظ حُرےت مےں معنی باقی ہے حسینؓ کا عمل تاباں ہے ، جب تک انسانی اقدار کا وجو دہے ، حسینؓ کا رجز وعزم ، نشان ِ راہ ہے ، دےن ِحق زندہ ہے اور حسےن ؑ زندہ ہے ، اسلام و اےمان باقی ہے حسےن ؑ کی شہادت عظمیٰ باقی ہے۔
اے امام ِ حق ، آپ کو سلام ! اے شہےدِ حق ، آپ پر سلام ، اے ذات ِ پاک ، آپ کے لئے سلام ! ہر صاحب ِ اےمان کا سلام ! تابہ ابد سلام ہی سلام!۔