"یوم عاشور کا تاریخی پس منظر
دس محرم الحرام عاشور ہ کا دن زمانہ اسلام سے قبل ہی قریشِ مکہ کے ہاں بڑی اہمیت کاحامل رہا ہے ، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ اس دن سے متعلق سیدنا ابراہیمؑ کی تعظیم و توقیر کے نہ صرف قریش بلکہ تمام اہل مکہ قائل تھے۔ر سول اللہ کا بھی یہ دستور رہا ہے کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے اور اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے۔ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی تو آپ نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا۔
تاریخی اعتبار سے اگر یوم عاشورہ کی تحقیق کی جائے تو مختلف تاریخی روایات اور کتب اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ دنیا کے بڑے اور عظیم واقعات یوم عاشور یعنی دس محرم الحرام کو رونما ہوئے۔
(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم ؑ کو پیدا کیاگیا۔
(۲) اسی دن حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی۔
(۳) اسی دن حضرت ادریسؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
(۴) اس روز حضرت نوحؑ کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(۵) اسی دن حضرت ابراہیمؑ کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(۶) اسی دن حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش ہوئی۔
(۷ (اس روز حضرت یوسفؑ کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(۸) اسی دن حضرت یوسفؑ کی حضرت یعقوب ؑ سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹) اس دن حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(۰۱)اسی دن حضرت موسیٰؑ پر توریت نازل ہوئی۔
(۱۱) اس دن حضرت سلیمان ؑ کو بادشاہت واپس ملی۔
(۲۱) اسی دن حضرت ایوب کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔
(۳۱) اسی دن حضرت یونسؑ چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(۴۱) اسی دن حضرت یونسؑ کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
(۵۱) اسی دن حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔
(۶۱) اور اسی دن حضرت عیسیٰ ؑ کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔
(۷۱) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(۸۱) اسی دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(۹۱) اسی دن حضور اکرم نے حضرت خدیجة الکبریٰ ؓ سے نکاح فرمایا۔
(۰۲) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول جگر گوشہ بتول ؓ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(۱۲) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)
مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔ چنانچہ:حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں۔مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے۔حضرت ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشورہ کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشور بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔ یوم عاشور کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہےں:پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریف میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علیؓ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ نیز حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؓ نے ارشاد فرمایا: ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔ اسی طرح ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔مندرجہ بالا احادیث شریف سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہر± اللہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس ماہ کی اللہ کی طرف سے خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوتی ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: (۱) ذیقعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ۱/۲۳۴، مسلم ۲/۶۰)۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسلامی سال کی ابتدا اسی مہینے سے ہے۔چنانچہ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال برقرار رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ۱/۶۰۱)دوسری طرف یوم عاشورہ کے دن واقع ہونے والے اسلامی تاریخ کا المناک سانحہ "سانحہ کربلا " بھی اسی دن وقوع پذیر ہوا ، جس میں نواسہ رسول امام عالی مقام سیدنا حسین ابن ابی طالب ؓ مع اپنے اہل بیعت کے میدان کربلا میں دین محمدی کے تحفظ اور تقدس کی خاطر حاضر ہوئے،اور اسلام کے علم کو بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،