پیکر وفا، حضرت عباسؓ
آصف سید
کربلا کی تاریخ میں جب عباس ابن علیؓ کا نام لیا جاتا ہے تو اس کے معنی لفظ ”وفا“ کی ایک مجسم تصویر کے ہیں۔امام حسینؓ کی ولادت کے موقع پر جب حضور اکرم آنکھیں نم ہوگئیں تو اہل بیت پریشان ہوئے شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہراؓ نے دریافت کیا بابا جان یہ تو خوشی کا موقع ہے آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں؟ تو حضور سرور کائنات نے فرمایا بیٹی تم ٹھیک کہتی ہو۔ لیکن ابھی جبرائیل امینؑ آئے تھے انہوں نے بتایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب یہ بچہ اسلام کی بقا کے لئے اپنی اور اپنی آل کی قربانی دے گا یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔حضور سرور کائنات امام حسین ؓکو اپنا فرزند کہتے تھے لہذا حضرت علیؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جب اسلام کی بقا کیلئے حسینؓ رسول خدا کی نیابت کررہے ہوں پرودگار مجھے بھی ایک ایسا بہادر فرزند عطا کردے جو کربلا کے میدان میں میری طرف سے قربانی پیش کرے۔
لہذا دختر رسول فاطمہ زہراؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے اپنے بھائی عقیلؓ سے کہا کہ میں عرب کے ایک بہادر ترین قبیلہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں تاکہ خدا مجھے ایک بہادر بیٹا عطا کردے جو کربلا میں حسین کا مددگار ہو۔ لہذا جناب عقیلؓ نے بنی کلاب کے قبیلہ سے اس کے سردار کی بیٹی ام البنین کا انتخاب کیا۔ جس وقت اُم البنین حضرت علیؓکے نکاح میں آئیں اور رخصت ہو کر حضرت علیؓ کے گھر میں آئیں تو پہلے دروازہ پر بوسہ دیا اور اندر جاکر شہزادوں حسن اؓور حسینؓاور شہزادیوں زینبؓ واُم کلثوم ؓ کو پیار کیا اور فرمایا بچوں میں تمہاری ماں بن کر نہیں بلکہ تمہاری کنیز بن کر آئی ہوں مجھے معلوم ہے تم بنت رسول کے فرزند اور دختر ہو۔ اس کے بعد اُم البنین نے اپنی ساری توجہ بچوں کی خدمت میں مرکوز کردی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ واقعہ کربلا کے وقت آپ حیات تھیں جب کربلا رکے درد ناک واقعات کی آپ کو اطلاع ہوتی تو اپنے بیٹوں کی شہادت پر آپ کو ملال نہ ہوا بلکہ فاطمہ زہراؓ کے لال حسین ؓکی شہادت کا غم زندگی بھر مناتی رہیں۔
ایک وقت وہ بھی آیا جب شیر خدا حضرت علیؓ کی آرزوﺅں کے مرکز حضرت عباسؓ پیدا ہوئے بچہ بڑا ہوتا ہے تو ہر ہر موقع پر اس کو گوش گزار کیا جاتا ہے کہ عباس تم میرے فرزند ہو او رحسین رسول اللہ کے فرزند ہیں میں نے رسول خدا کی غلامی پر ہمیشہ فخر کیا تم بھی حسینؓ کو اپنا آقا سمجھنا اور ان کی اطاعت لازم سمجھنا۔جب عباسؓنے ذرا ہوش سنبھالا تو حضرت علیؓنے ان کو فن سپہ گری کی تربیت دینا شروع کی۔ کمسنی ہی میں فن سپہ گری کی ایسی تربیت حاصل کی بڑے سے بڑا بہادر آپ کے مقابلے میں آتے ہوئے گھبراتا تھا۔ جنگ جمل، سفین اور نہروان میں آپ نے ایسے جوہر دکھائے کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے۔
حضرت عباس ؓ بہت خوبصورت اور دراز قد تھے جس کی وجہ سے ان میں جذب و کشش کا ملکہ تھا ۔عباسؓ چونکہ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے واقعات کربلا کے بعد آپ عباس علمدارؓ اور سقائے سکینہ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباسؓ کا سن مبارک تقریباً تیس بتیس سال کا تھا۔ یہ عمر بھرپور جوانی کی عمر ہے جس میں شعور کی پختگی ہوتی ہے اس منزل پر پہنچ کر بیٹا باپ کا اور بھائی بھائی کا شریک مشورہ ہوتا ہے لیکن کربلا کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عباس ابن علیؓ نے حسینؓ کو اپنا بھائی نہیں بلکہ آقا تصور کیا ہے اور ان کے ہر حکم کی تعمیل کی۔
جنگ کا میدان ہو یا صلح کی منزل جس طرح حضرت علیؓ نے ہجرت کے موقع پر بستر رسول پر لیٹ کر ہر حکم پر لبیک کہا اسی طرح عباس ؓنے ہمیشہ حسینؓ کے ہر حکم کو تسلیم کیا اور اطاعت میں سر خم رکھا۔حضرت عباسؓ جوہر وفاداری کے مظاہرات اس وقت سے شروع ہوئے جس سے آپ حسینؓ کے دامن تربیت میں آئے اور اعلان حق اس وقت سے ہواجب حضرت امام حسینؓ کو یزید کی بیعت کے لئے ولید نے اپنے دربار میں بلایا۔ بنی ہاشم تلوار کے دھنی تھے اور خاندان بنی ہاشم کے بہادروں کی قیادت عباس ابن علی ؓ کے ہاتھ میں تھی لیکن حسین ؓ خونریزی نہیں چاہتے تھے لہذا عباس کو حکم دیا کہ تلوار میان میں رکھ لو ہم کسی طرح کی پہل نہیں کرنا چاہتے اور عباس ؓ خاموش دربار سے واپس آگئے ۔ضبط کا یہ مرحلہ بہت مشکل تھا اطاعت اما م ؓنے عباسؓ کو مجبور کردیا ،ور نہ کہاں حسینؓ اور کہاں یزید کی بیعت۔
ہادی عالم کے اصولوں اور اسلام کی بقا کیلئے امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ اور اہلبیت کو مدینہ چھوڑنا پڑا مکہ میں بھی امان نہ ملی توکربلا کی طرف کوچ کیا سفر کے دوران عباس ؓ قافلہ کی نیابت کر رہے ہیں دریا کے کنارے سے خیام اہل بیت کو ہٹانے کا حکم، سات محرم سے پانی بند کرنے کا حکم اور سب عاشورہ اشقیاءسے ایک رات کی مہلت مانگنے کیلئے امام عالی مقام کا بھیجنا یہ وہ لمحات تھے جسے عباس ؓ امام عالی مقام کے حکم سے ضبط کرتے ر ہے۔
صبح عاشورہ معرکہ کار زار گرم ہوا اصحاب وانصار شہید ہو چکے عزیزوں کی باری آئی ہر شہید کے جانے سے قبل عبا سؓ آقا امام حسینؓ کی خدمت میں آتے ہیں اور جنگ کی اجازت چاہتے ہیں اور امام حسینؓ اجازت نہیں دیتے۔ آخر کار چہیتی بھتیجی کی پیاس دیکھ کر مضطرب ہوگئے۔ بہت اصرار پر پانی لانے کی اجازت ملی۔ خیام اہلبیت سے نہر فرات تین میل کے فاصلے پر تھی جس کے چاروں طرف پہرہ تھا لیکن علی کے شیر نے ایک زبردست حملہ کیا اور فرات پر قبضہ کرلیا۔ مشک بھر کر چلو میں پانی لیتے ہیں اور یہ کہہ کر پھینک دیتے ہیں قسم خدا کی میں پانی نہ پیوں گا اس لئے حسینؓ اور ان کے بچے پیاسے ہیں ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات عباس ابن علیؓ وفاداری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ شیر خدا کی آرزو اور وصیت کے مطابق حضرت عباس ؓ نے اپنے امام حسین ؓے ہر حکم کی بجا آوری اس حسن و خوبی سے ادا کی کہ آج بھی ان کا نام تاریخ کربلا اور تاریخ انسانیت میں جلی حروف سے ”بعنوان پیکر وفا“ درج ہے جس کی شہادت سے حسین ؓ کی کمر ٹوٹ گئی اور اس بہادر سپاہی نے ایسی ایسی غمخواری کی جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،