اثاثہ جات ریفرنس: اسحاق ڈار کے دیر سے آنے پر احتساب عدالت برہم‘ ایک گواہ کا بیان قلمند
اسلام آباد (نامہ نگار) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار تیسری بارامدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کا سامنے کرنے کیلئے احتساب عدالت میں پیش ہوگئے جبکہ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ اشتیاق علی کا بیان قلمبند کرنے کے بعد اس پر جرح مکمل کرلی گئی اور آئندہ سماعت پر مزید دو گواہوں کو بیان طلب کرلیا گیا ہے اور سماعت12 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔ دریں اثناء اسحق ڈار نے مقدمہ میں دفاع کیلئے اپناوکیل تبدیل کرلیا ہے۔ خواجہ حارث نے کیس میں اسحق ڈار کی وکالت کی۔ احتساب عدالت کے جج بشیر احمد نے ملزم اسحاق ڈار کی موجودگی سے متعلق استفسار کیا تو نیب حکام نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو 8بجے یہاں آنا چاہیے تھا، وہ کیوں انتظار کرا رہے ہیں جس پر عدالت نے سماعت 20منٹ کے لئے ملتوی کی تو اسحاق ڈار وکلا کے ٹیم کے ساتھ کچھ دیر بعد عدالت پہنچے۔ اس دوران نیب کی ٹیم اور استغاثہ کے 28میں سے 2 گواہ عدالت میں موجود تھے، استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے گواہوں میں سے اشتیاق علی منیجر اکائونٹس بینک الفلاح گلبرگ لاہور اورطارق جاوید سینئر نائب صدر البرکۃ بینک ہیں۔ دونوں گواہان نے متعلقہ ریکارڈ عدالت کے حوالے کیا اور اس ریکارڈ کے درست ہونے کی تصدیق کی تاہم صرف ایک گواہ اشتیاق علی کا بیان قلمبند کیاگیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں16اگست 2017ء کو نیب نے طلب کیا اور وہ 28اگست کو نیب کے سامنے پیش ہوئے جہاں انہوں نے اسحاق ڈار اور ان کے خاندان کے بنک اکائونٹس کی تفصیلات فراہم کیں۔ اشتیاق علی کے بیان کے مطابق سی ای او ایچ ڈی سکیورٹی کمپنی کا بنک اکائونٹ تبسم اسحاق ڈار کے نام کھلوایا گیا اور 16اپریل 2003ء کو کمپنی ڈائریکٹر نعیم محبوب نے کمپنی کا ایڈریس تبدیل کرنے کا کہا۔ اس پر فاضل جج محمد بشیر نے استفسار کیاکہ یہ تمام دستاویز کس نے تیار کئے تو گواہ کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات بنک کے کمپیوٹر کے ذریعے تیار کی گئیں۔ نیب افسر نے جرح میں اٹھائے گئے سوال پر بتایا کہ یہ تمام دستاویز تفتیشی افسر کے پاس پڑی ہیں۔گواہ کا کہنا تھا کہ وہ 29اگست کو دوبارہ نیب کے سامنے پیش ہوئے کیونکہ بنک منیجر نے سارا ریکارڈ نیب کو فراہم کرنے کاکہا تھا انہوں نے مزید بتایا کہ نجی بنک میں اسحاق ڈار کا ذاتی اکائونٹ بھی تھا ۔ گواہ اشتیاق علی کا بیان ریکارڈ کر ہونے کے بعد خواجہ حارث نے گواہ پر جرح کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ کیا ان کے پاس نیب کی طرف سے اکائونٹس کی تفصیلات سے متعلق لکھے گئے خط کا ریکارڈ موجود ہے تو اشتیاق علی نے جواب دیا کہ جی میرے پاس ریکارڈ موجود ہے جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ یہ خط تو آپ کو نہیں لکھا گیاکیا خطوط کی اصل کاپی موجود نہیں ۔ گواہ نے جواب دیا کہ انکے پاس اصل کاپی موجود ہے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو خط دکھائے ہیں ان تمام کی کاپیاں موجود ہیں۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اسحاق ڈار کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات مانگی گئیں لیکن ان خطوط میں ایچ ڈی ایس کمپنی کی تفصیلات نہیںمانگی گئیں۔ سترہ اگست 2017ء کے خط میں بھی ایچ ڈی ایس کی تفصیلات نہیں مانگی گئیں۔گواہ اشتیاق علی نے کہاکہ جی ایسا ہی ہے۔ اس دوران نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ یہ خط نیب کے کہنے پر آئے ہیں۔ خواجہ حارث نے اس موقع پر کہاکہ آپ کو ایسے سوالوں سے نقصان ہو گا اور جب آپ دستاویزات نیب لے کر گئے تو کیا دستاویزات انہی کو دے دیں تھیں۔گواہ نے کہاکہ نیب کو نقول دی گئیں اصل نہیں ، اصل دستاویزات کی کاپیاں عدالت کو دی ہیںان کا کہنا تھاکہ تصدیق شدہ کاپی بنانے کے بعد اس میں ٹمپرنگ نہیں کی گئی جبکہ تصدیق شدہ کاپی کی تصدیق بھی میں نے خودکی ہے۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کی طرف سے اسحاق ڈار کی درخواستیں مسترد کرنے سے لگتا ہے کہ ملک میں نئے قانونی ضابطے بنائے جا رہے ہیں، احتساب عدالت کے اندر مشکوک سرگرمیوں کی ویڈیو سامنے آنے سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے اسحاق ڈار کی طرف سے دائر کی گئی درخواستیں یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ یہ ریفرنس سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کئے گئے ہیں اس لئے وہ اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ سب وکلاء سوچ رہے ہیں کہ کیا ان کی پریکٹس کے دوران کبھی ایسا ہوا ہے کہ نیب کے ریفرنسز پر سپریم کورٹ کا مانیٹرنگ جج مامور ہو۔ انہوں نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہمیں چارج شیٹ تک نہیں ملی۔ چارج شیٹ کی تصدیق شدہ کاپی تو کیا نقل بھی موجود نہیں ہے۔ ظلم و جبر کے ضابطے ہم نہیں مانتے۔ اس سارے عمل کو ہم آگے لے کر چلیں گے۔ جن اداروں نے انصاف فراہم کرنا ہے انہیں دیکھنا چاہئے کہ کہیں ان پر سوالات تو نہیں اٹھیں گے۔