خون عطیہ کرنا عطائے ربی ہے اور حمید نظامی چیئر
حق کی راہ میں خون بہانا اور زندگی بچانے کے لیے خون دینا ایک جیسا عمل بھی ہو سکتے ہیں۔ تھیلسیمیا خون کی ایک بیماری ہے جو خاص طور پر بچوں میں ہوتی ہے۔ مائرہ خان اور عمیر نے مل کر ایک تنظیم بنائی ہے جس کا نام ام نصرت فاﺅنڈیشن رکھا ہے۔ یہاں تھیلسیمیا کے مریض بچوں کو تازہ اور صاف خون فراہم کیا جاتا ہے۔
گزشتہ روز وزیر صحت عمران نذیر ام نصرت فاﺅنڈیشن کے وزٹ پر آئے۔ عمران نذیر وزیر بننے سے پہلے جو کچھ تھا وہی کچھ ہے، جیسا تھا ویسا ہی ہے۔ میرا تعلق اس سے پچھلے بیس بائیس برس سے ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔
لوگ وزیر بن کے وزیر شذیر بن جاتے ہیں اور پھر ساری عمر اپنے نام کے ساتھ سابق وزیر لکھتے ہیں۔ سابق ہونا باقاعدہ ایک منصب بن چکا ہے۔ مگر وہ وزیر بننے سے پہلے عمران نذیر اور وزیر بننے کے بعد بھی عمران نذیر۔ صحت کے محکمے میں دو وزیر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ہمزاد ہیں اور ہمراز ہیں۔ خواجہ عمران نذیر سلمان رفیق جیسا ہے اور سلمان رفیق عمران نذیر جیسا ہے۔ عمران نذیر نے تھوڑے سے وقت کی ملاقات میں کئی بار خواجہ سلمان رفیق کا ذکر کیا اور اکٹھے مل کر ام نصرت فاﺅنڈیشن کے حوالے سے معصوم اور مظلوم بچوں کی معاونت اور دیکھ بھال کا وعدہ کیا اور ارادہ بھی کیا۔ مائرہ خان اور عمیر بھائی کے ساتھ مجھے بھی شریک کیا۔
مریض بچوں کی طرف دیکھا نہیں جاتا تھا۔ وہ بچے لگ ہی نہیں رہے تھے۔ ایک بچے کی آنکھوں میں بھولے بسرے بچپن کی چمک تھی۔ وہ خوبصورت بھی تھا۔ بچہ شرارتی ہو تو خوبصورت لگتا ہے۔
بچپن اور بہشت میں بہت کم فرق ہے۔ بچپن کا بھولپن اور بانکپن ان بچوں سے کہیں کھو گیا تھا۔ بچپن کو تلاش کرنا ناممکن ہے۔ بچپن وہ عرصہ عمر ہے جو یاد نہیں رہتا۔ جو یاد رہتا ہے وہ بچپن نہیں ہوتا۔
برادرم عمران نذیر ہر بچے کے پاس گئے اس سے نام پوچھا۔ اس سے باتیں کیں۔ ایک بچہ مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک آہٹ تھی جو میں نے دل کے کانوں سے سنی۔ عمران نذیر درد رکھنے والا آدمی ہے۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں وہ چمک تھی جو آنسو ضبط کرنے کے بعد پھوٹتی ہے۔
عمیر اور مائرہ نے یہ کام مل کر شروع کیا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کر لی۔ اب تو مل کر بچوں کی دیکھ بھال کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ یہ ان دونوں کے اس کام میں مخلص ہونے کی ایک گواہی ہے۔
عمران نذیر نے اپنے مختصر خطاب میں ام نصرت فاﺅنڈیشن والوں کی خدمات کو سراہا ہے اور کہا کہ اپنے لیے جینے کا نام زندگی نہیں ہے۔ دوسروں کے لیے جینے کا نام زندگی ہے۔ عمیر کے والد مائرہ کے سسر خالد اعجاز مفتی نے ایک مختصر سی تقریب کے لیے دردمندانہ کمپیئرنگ شروع کر دی۔ انہیں میرے وہ جملے بھی یاد تھے جو میں نے کبھی کسی گفتگو میں کہے تھے اور مجھے بھول گئے ہیں۔ میں نے کہا تھا اور مفتی صاحب نے یاد رکھا۔ ”صوفی وہ ہے جو منع نہیں کرتا، جو جمع نہیں کرتا، جو طمع نہیں کرتا۔“ خالد اعجاز مفتی شاید سچے مفتی ہیں کہ انہوں نے آج تک کبھی کوئی فتویٰ نہیں دیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے کام آنا سب سے بڑا تقویٰ ہے۔ میں نے ایسا بے لوث اور بے ضرر آدمی نہیں دیکھا۔
شعبہ ابلاغیات کی طرف سے مجید نظامی کی ہدایت پر ”حمید نظامی چیئر“ قائم کی گئی ہے اور انہی کی ہدایت پر مجھے اس چیئر کے لیے انچارج پروفیسر بنایا گیا۔ حیدر رضا رومی کو معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔ رشید شیخ کو کمپوزنگ کے لیے ڈیوٹی سونپی گئی۔ حمید نظامی نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر نوائے وقت کی اشاعت کا آغاز کیا تھا مگر انہیں زیادہ موقع نہ ملا۔ ان کے بعد مجید نظامی تقریباً نصف صدی تک نوائے وقت کے ایڈیٹر رہے۔ ان کی وفات کے بعد رمیزہ مجید نظامی نے نوائے وقت کی ادارت سنبھالی۔ اب تک نوائے وقت بڑی خوش اسلوبی اور اپنی تہذیبی حیثیت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ آج بھی نوائے وقت کی پیشانی پر حمید نظامی کا نام بانی ایڈیٹر کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔ نوائے وقت کی تعمیر و تدوین میں مجید نظامی کا کردار بہت نمایاں ہے۔ انہیں نوائے وقت کے معمار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور آج کل نوائے وقت کی ایڈیٹر رمیزہ نظامی ہیں۔
شعبہ ابلاغیات میں حمید نظامی چیئر کے زیراہتمام اب تک تین کتابیں شائع ہوئی ہیں جنہیں بہت پذیرائی ملی ہے۔ اس کے لیے انچارج شعبہ ڈاکٹر پروفیسر نوشیہ سلیم معاونت کرتی ہیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر ظفر معین ناصر بھرپور سرپرستی کرتے ہیں۔ شعبہ ابلاغیات میں ایڈیٹوریم کا نام بھی حمید نظامی ایڈیٹوریم رکھا گیا ہے۔ نامور شاعر محمد جلیل عالی کا ایک شعر حمید نظامی کے لیے:
اس نے سمجھایا ہمیں اصل کہانی کیا ہے
اس نے پڑھوایا وہ نکتہ بھی جو لکھا نہ گیا