استغاثہ نیک نیتی سے محنت کرے تو مقدمات اعلیٰ عدالتوں تک نہ آئیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کے تین متفرق مقدمات میںناکافی شواہد اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے 3 ملزموںکو بری کرنے کا حکم جاری کردےا ہے۔دوران سماعت عدالت نے قرار دےا کہ اگر استغاثہ شروع ہی میں نیک نیتی سے محنت کرے تو کیس اعلیٰ عدالتوں تک ہی نہ آئیں اور جوڈیشری پر التواءمقدمات کے بوجھ میں بھی کمی واقع ہو۔پہلے مقدمہ میں وکیل انیس نے عدالت کو بتاےا کہ ملزم غلام علی پر بہاولنگر میں اللہ دتہ نامی شہری کو قتل کرنے کا الزام تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے سزا میں کمی کر کے سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ استغاثہ اس مقدمہ میں اس گھر کے گواہان کو پیش کرنے میں ناکام رہا جس گھرمیں قتل کا واقعہ ہوا تھا۔عدالت نے بریت کی اپیل منظور کرتے ہوئے ملزم کی تمام سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کا حکم جاری کر دیدیا ہے۔دوسرے مقدمہ میں ملزم کے وکیل ملک عبدالحق نے عدالت کو بتاےا کہ اپنے چچا دلبر حسین کو 2007 میں قتل کرنے والے ملزم محمد عرفان کو کم عمر ہونے کی وجہ سے عمر قید کی سزا میں کمی کر دی گئی ملزم نے پانی کے تنازعہ پر کلور کوٹ ضلع بھکر میں اپنے چچا کو قتل کیا تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی تاہم ہائی کورٹ نے کم عمری کی وجہ سے سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔تیسرے مقدمہ میںملزم ذوالفقار علی کے وکیل محمد یوسف ضےاع نے عدالت کو بتاےا کہ ملزم پرگجرانوالہ کی سیٹلائٹ ٹاﺅن میں اپنے گھر کے اندر ایک خاتون رابعہ بی بی کو قتل کرنے کاالزام تھا ۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ شک کتنا بھی مضبوط ہو وہ ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا اس لیے شک کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔عدالت نے ملزم ذوالفقار کی بریت کی اپیل منظور کرتے ہوئے عدالت عظمی نے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔