خود غرضیاں تھکا دیتی ہیں
قوموں پر جمود کے اثرات اس وقت شدت سے نمودار ہوتے ہیں جب اصل محرکات اور قوم کو منزل مقصود پر پہنچانے والے عوامل کی جگہ خود غرضیاں‘ لالچ‘ ذاتی مفادات جنم لینے لگتے ہیں۔ تب مقصدیت کہیں گم ہو جاتی ہے۔ بے مقصد زندگی تھکا دیتی ہے۔ چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ دنیا کی تاریخ کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پست سے پست ترین معاشرے نے بھی اگر ترقی کی ہے تو ان میں روشنی کی کرن اور زندگی کی رمق رہی ہے۔ قارئین کرام معاشرے کے تاروپود تو اس وقت بکھر جاتے ہیں جب واضح نصب العین کو دھندلا کر دیا جائے۔ قانون مضبوط نہ رہے۔ ارسطو اس دور کو دور زوال کی ابتدا اور ایسی حکومتوں کو چند سری حکومت کہتا ہے کہ ہر چیز کا دائرہ کار ایک مخصوص ڈھانچے کے گرد گھومتا ہے۔ انسان سب سے زیادہ غیر محفوظ تو اس وقت ہو جاتا ہے جب وہ طاقت اور زر کا سہارا لے کر خود کو مضبوط سمجھنے لگتا ہے جبکہ اس وقت وہ سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا تھا کہ میں اس وقت تک مضبوط نہیں جب تک غریبوں کو ان کا حق نہ دلوا دوں۔ یہاں پر ایک نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ جہاں محبت کی حکمرانی ہو وہاں حقوق مانگنے نہیں پڑتے اور جہاں محبت کی حکمرانی نہ ہو وہاں حقوق چھیننے پڑتے ہیں اور اس چھینا جھپٹی میں فرائض کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ معاشرہ کمزور ہو جاتا ہے۔ حق اسی کو ملتا ہے جو دوسروں کا حق تسلیم کرتا ہے۔ تکلیف اسی کو ملتی ہے جو دنیا کی پرستش کرتا ہے۔ دنیا کی پرستش میں خود پسندی‘ خود پرستی‘ ہوس‘ لالچ اور ذاتی مفادات جیسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں۔ تب روح اور جسم میں تضادات کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم خواہشات کا تابع ہوتا ہے تو روح میں خود بخود بے چینی اور پژمردگی کے عوامل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جسم کا عمل اگر نظم و ضبط کے تابع ہے تو روح تک کسی بھی قسم کے زلزلہ کے اثرات پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن ہماری یہ صورتحال ہے کہ یقین اور تذبذب کے درمیان کے مسافر ہیں۔ بس یہ بھول گئے ہیں کہ یقین جنت ہے اور تذبذب جہنم۔ یقین جیت ہے اور تذبذب شکست۔ محمود غزنوی جب سومنات پر سترہواں حملہ کرنے کے لئے گیا تو اس نے دیکھا کہ سومنات کے مندر کے اندر ایک بت فضا میں معلق ہے۔ وہ تھوڑا سا حیران ہوا۔ وہاں کے لوگ اس تذبذب میں تھے کہ جب تک یہ بت فضا میں معلق رہے گا انہیں شکست نہیں ہو سکتی۔ محمود غزنوی نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ تلوار کو بت کے چاروں اطراف گھمائے۔ تلوار کا رخ چھت کی طرف اٹھ گیا جب چھت کو اکھڑوایا گیا تو اس میں مقناطیس چھپایا ہوا تھا۔ مقناطیس ہٹاتے ہی بت زمین پر آ گرا۔ ساتھ ہی ضعیف الاعتقاد قوم کا یقین تذبذب میں بدل گیا اور انہیں شکست ہو گئی۔ ہم سب نے اپنے اندر اپنی مرضی کے بت پال رکھے ہیں اور جھوٹ‘ فریب‘ ہوس زر‘ طاقت کا منفی استعمال اس بت کو گرنے نہیں دیتا۔ اس موقع پر ہمیں شعور اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ شعور ادراک دانائی کا شاخسانہ ہے اور دانائی خوف خدا ہے۔ دانائی دنیاوی معاملات میں راستی ہے۔ دانائی حب الوطنی ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں پاکستان اللہ کے نام پر حاصل ہوا یہ نور ہے نور کو زوال نہیں جس نے پاکستان کی عزت کی اس کے مراتب اور عزت میں اضافہ ہوا اور جس نے اسے ذلیل و رسوا کیا وہ خود ذلیل و رسوا ہوا رسوائی کی بھی کئی اقسام ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں زمانہ برا کہتا ہے اور ہم خود کو درست کہتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم خود کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم کہاں پر غلط ہیں اور کس حد تک خود کو درست کر سکتے ہیں اور اسی سوچ کو دلوں کی درستگی قرار دیا جاتا ہے۔ ایک مورخ اور مفکر کنفیوشس کا کہنا ہے کہ ”جب کسی ریاست کے حکمران چاہتے ہیں کہ ریاست میں نیکی اور امن یکجا ہو جائیں تو وہ سب سے پہلے اپنے عمل کو درست کرتے ہیں۔ عمل کے درست ہوتے ہی دل درست ہو جاتے ہیں اور جب دل درست ہو جائیں تو کوئی سفر تھکا دینے والا نہیں ہوتا۔
بے وقت اگر جا¶ں گا تو سب چونک پڑیں گے
مدت ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ کون بلند ہے اور کون پست‘ سبھی کے پا¶ں زمین پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بلندی کے لئے نگاہ کی بلندی ضروری ہے اور پستی کے لئے فکر کی پستی کافی ہے اور فکر کی پستی سے نکلنا ہی دراصل زندگی اور معاشرے کی زندگی کی بقا اور جلا کا ضامن ہے۔