• news
  • image

دولت کا انبار قارون کی ہلاکت اور موسیٰ ؑ

قارون ایک ایسا نام ہے جس کا نام ذہن میں آتے ہی خزانوں کے انبار انکھوں کے سامنے ناچنے لگ جاتے ہیں ۔ ہزاروں سال بیت جانے کے بعد بھی یہ نام زندہ ہے ۔ اور قیامت تک رہے گا۔ اب کائنات نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کیلئے ایک مثال بنا کر قرآن کریم میں نقش کر دیا ۔قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے خداوندقدوس سے عرض کی کہ ہمارے پاس تو کوئی دھن دولت نہیں ہم کس طرح تو ریت کو زیب و زینت سے آرائش کریں گے ۔ تو جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ جو گھاس بچھڑے کو جلانے کیلئے میں نے بتائی تھی ۔ اس میں دو قسم کی اور جلالو اللہ کی قدرت سے اگر یہ تانبے پر رکھو گے تو سونا ہو گا۔ اگر پیتل پر رکھوگے تو چاندی ہو گی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایک رقعہ پوش کو لکھا ایک قارون کو لکھا اور ایک رقعہ کالوت کو لکھا کہ مجھے فلاں فلاں گھاس درکار ہے۔ قارون چونکہ چالاک اور توریت کا حافظ تھا ۔ اس نے بہانے سے دوسرے دونوں رقعے بھی پڑھ لئے اور تینوں گھاسوں کو ملا کر چوری چھپے کیمیا گری کرتا رہا ۔ جس سے اس نے بے شمار دولت جمع کر لی جب اس نے بے شمار خزانے جمع کر لیئے جن کی چابیاں ستر اونٹ اٹھاتے تھے ۔ اس کا عمل توریت پر تھا ۔ جب دولت کے بے تحاشہ انبار لگ گئے ۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے اسے زکوٰة دینے اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کیلئے کہا تو وہ نہ صرف موسیٰ علیہ السلام کا بلکہ اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہو گیااور موسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔ اس کی وجہ سے موسیٰ کی قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی ۔ قارون کا گروہ بے تحاشہ دولت کی وجہ سے فسق و فجو ر میں پڑگیا ، آڑئش و زیبا ئش سے لدے ہزاروں لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ پھرنے لگا ۔ اس کے غلام دائیں بائیں آگے پیچھے چلتے ، مادیت پرست انہیں دیکھ کر واہ واہ کر اُٹھتے ۔ اور اس کی قسمت پر رشک کرتے ۔ ایک روز موسیٰ علیہ السلام کو وحی ہوئی حکم ہوا قارون کو کہو زکوٰة دے ۔ تو قارون نے صاف انکار کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے اصرار پر قارون اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ۔ اور بھاری رقم کے عوض ایک عورت کو تیار کر کے موسی علیہ السلام پر بہتان لگانے کی سازش تیار کی ۔ موسیٰ علیہ السلام منبر پر بیٹھے لوگوں کو حلال و حرام کی باتیں بتا رہے تھے ۔ کہ قارون اس فاسق فاجرہ عورت کو سامنے لے آیا ۔ کہ وہ موسیٰ علیہ السلام پر بہتان تراشی کرے تاکہ قوم کے سامنے موسیٰ علیہ السلام پر الزام لگا یا جاسکے ۔ قوم قارون بہت خوش تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو پلٹ دیا ۔ تو اس نے اصل حقیقت بتا دی دولت کے نشے میں قارون کی گستاخیاں بڑھنے لگی اور وہ حد سے تجاوز کر گیا ۔ تو اللہ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر مارا اور اسے حکم دیا کہ اس مردود سرکش کو اپنے اندر دبالے ۔ تو زمین نے قارون کو زانو¿ں تک دبالیا ۔ اب یہ مردود معافیاں مانگنے لگا ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام غصے میں زمین کو حکم دیتے رہے یہاں تک یہ کافرکندھوں تک زمین میں دھنس گیا تو قارون نے کہا موسیٰ تو اب میرے خزانوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے اس کے تمام خزانے اس کے سامنے لا کر رکھ دیئے ۔ جس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے قارون یہ سب مال و متاع میں لے ۔ اس کے محلات سے لیکر درہم و دینار تک زمین نے دبا لئے ۔ یہ عذاب قیامت تک چلتا رہے گا۔ اور قارون خزانوں سمیت زمین میں دھنستا چلا جائے گا ۔ قارون کا مال دولت اسے بچانہ سکا ۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نے اسے قیامت تک کیلئے ایک مثال بنا دیا مگر انسان بنیادی طور پر لالچی ہے طمع نفسانی میں اللہ کی حدود کو پامال کرکے عیش و عشرت کو اپنااوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے ۔ آج کی دنیا کی مثال بھی کچھ اس سے کم نہیں ۔ جائز ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی ‘ مال و دولت ظاہری نمودو نمائش اور پروٹو کول ہمارے گلے کے طوق بن چکے ہیں ۔ اس مادیت پرستی کے دور میں ہم اندھے ہوچکے ہیں ۔ شنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا انجام ہم بھول نہ پائے تھے ۔ کہ صدام حسین نے لیبیا کے معمر قذافی کی بے تحاشہ دولت کے انبار آج بھی یہیں کے یہیں ہیں ۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں اور تکبر غرور گھمنڈ ہمیں اپنے رب سے دور کر دیتا ہے ۔ آج کل اس طرح کی مثالیں ہمارے ملک میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ دولت کے نشے میں چور بڑی بڑی گاڑیوں کے لاﺅ لشکر میں اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کیلئے اداروں کو تباہ کرنے کی حکمت عملی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ جو زخموں سے بھرے اس ملک کیلئے تباہ کن ہو گی شریف خاندان مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔ 1985سے لیکر آج تک کی گئی تمام باتیں ان کے سامنے آرہی ہیں ۔ مگر افسوس رویوں میں تبدیلی نہیں آرہی ۔ ہمارے برسراقتدار رہنے والے خاندانوں میں شاید یہ بات سرایت کر چکی ہے ۔ کہ اگر اقتدار ہے تو ملک چاہےے ۔ اگر ان کے پاس اقتدار نہیں تو ملک تباہ ہو جائے ‘ انہیں کوئی فکر نہیں وہ اپنے آپ کو اس قدر نا گزیرسمجھتے ہیں جیسے قیامت تک کیلئے زندہ رہیں گے ۔ فرانس کے عظیم رہنما ڈیگال جب اقتدار چھوڑنے کا سوچ رہے تھے تو ان کے مشیران نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ فرائض کے لئے نا گزیر ہیں ۔ تو انہوں نے ان مشیروں کو ساتھ لیکر اپنے دفتر سے ملحقہ قبرستان کی جھلک دکھا کر کہاتھا کہ یہ سب نا گزیر تھے مگر موت نے انہیں دبوچ لیا ۔ گزشتہ روز لاہور کے کنونشن میں میاں شہباز شریف نے بھی اس قسم کے مشیروں کی بات کی ہے شائد میاں نواز شریف اپنے بھائی کی ہی بات سمجھ جائیںا ور اس مملکت خداداد پر رحم کھائیں ۔ جس کا ایک ایک گوشہ ان سیاستدانوں کے دیئے ہوئے زخموں سے چُورچُورہے ۔ کبھی مجھے کیوں نکالا کی صدائیں لگتی ہیں ۔ کبھی مجھے کیوں روکا کا رونا پیٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جس کا جواب بھی گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بھر پور طریقے سے مل چکا ہے ۔ خدارا اس ملک اور قوم پر رحم کریں ۔ دشمن اسے عقابی نظروں سے دیکھ رہا ہے ۔ آج جس قدر اتحاد ویگانگت کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی جس ملک نے آپ کو شناخت دی ہے ۔ عزت دی ہے اس پر رحم کریں اور اس کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں ۔ ورنہ آئندہ نسلوں کو کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن