• news
  • image

زبان پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی

فارسی زبان کی شیرینی اور چاشنی کا نعم البدل نہیں۔ ایران و تاجکستان نے بڑے بڑے شعراءپیدا کےے۔ فردوسی، حافظ شیرازی، عمر خیام، سعدی، قاآنی اور رود کی آسمان شعر فارسی کے درخشاں ستارے ہیں۔ برصغیر میں بھی بیدل دہلوی، امیر خسرو، غالب دہلوی اور علامہ اقبال نے فارسی شاعری کو چار چاند لگا دیئے۔ کشمیر نے غنی کا شمیری جیسا بلند پایہ اور نغزگو شاعر فارسی زبان پیدا کیا جس کا یہ شعر زبان زد عام ہے ....
غنی روز سیاھ پیر کنعاں راتماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
لیکن یہ انتہائی ستم ظریفی کی بات ہے کہ علامہ اقبال کے بعد برصغیر ہندو پاک میں فارسی زبان اور فارسی شاعری زوال پذیر ہوگئی۔ میں نے کئی اردو شعراءکے کلام میں زبان کی اغلاط پائی ہیں۔ دراصل زبان کی وقعت و اہمیت کا دارومدار علوم جدیدہ اور روزگار کے حصول تک محدود ہوگیا ہے۔ برصغیر میں مغلیہ عہد حکمرانی کی زبان فارسی تھی اور اہل علم و ادب کی زبان بھی فارسی تھی۔ انگریزوں کی برصغیر میں حکمرانی کی بدولت انگریزی زبان کا تسلط ہوا۔ آج انگریزی زبان ایک عالمی سائنسی، علمی اور ثقافتی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ کئی ممالک اور اقوام میں دوسری زبان کے بطور پڑھائی جاتی ہے اور بولی جاتی ہے گویا انگریزی زبان ایک عالمی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ کئی ممالک اور اقوام میں دوسری زبان کے بطور پڑھائی جاتی ہے اور بولی جاتی ہے گویا انگریزی زبان اب ایک عالمی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ پاکستان میں بھی انگریزی زبان علمی اور سائینسی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ جو وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ملک اور قوم کی ایک ”قومی زبان“ہوتی ہے۔ مادری زبان اگر ترقی یافتہ نہ ہوتو اسے ”زبان “نہیں بلکہ ”بولی“کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اردو زبان مقامی اور مادری بولیوں کے مقابلہ میں ترقی یافتہ زبان ہے اور ”وحدت قوم“کیلئے اس کا ارتقاءاور نفاد ازحد ضروری ہے۔ اردو زبان کے شاعروں بدون زبان فارسی چشم نرگس کی مانند ہے۔ چشم بینا کیلئے بصارت و بصیرت درکار ہیں۔مگر اب اردو بے رنگ نہیں رہی۔ زبان شعر و ادب ہے لیکن ضروری ہے کہ فارسی سے اس میں رنگ بھرتے رہیں۔ میرے فارسی زبان میں تین شعری مجموعہ حلقہ زنجیر ، آتش غزل اور جام وفا شائع ہوچکے ہیں۔ صوفی حنیف سلطانی کا نعتیہ فارسی مجموعہ کلام بعنوان ”مرآت جمال“ فارسی شاعری میں قابل تحسین اضافہ ہے۔
”زبان پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی “حفیظ جالندھری نے کہا تھا۔ اقبال نے کہا ”گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے“۔ لیکن داغ دہلوی نے اعلان کیا ”اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ“۔ واقعی آج اردو عالمی سطح پر ادب میں اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ ڈاکٹر نثار ترابی اردو اور پنجابی کے نامور شاعر ہیں۔ آپ ماہر تعلیم،نقاد اور محقق ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں شائع ہوکر اہل علم و ادب سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ اگست 2017ءمیں نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے انکی مرتب کردہ کتاب بعنوان ”منتخب کلام داغ دہلوی“ شائع کی ہے۔ داغ دہلوی سادہ وسلیس زبان و بیان کی بدولت اردو شاعری اور صاحب اسلوب شاعر مانے جاتے ہیں۔ انکے کئی مصرعے ضرب الامثال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ نیشنل بک فاونڈیشن کے ایم ڈی ممتاز شاعر، نقاد اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں ”حضرت داغ دہلوی پہلے کلاسیکی دور کے آخری شاعر تھے جن کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ قلمی دوستی کی طرح آپکے قلمی شاگرد بھی بہت زیادہ تھے جو بذریعہ خط اصلاح لیا کرتے تھے“۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی آغاز شاعری میں خط و کتابت کے ذریعہ داغ دہلوی سے کلام میں اصلاح کی اور ”شاگردی داغ سخنداں“ پر فخر کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر نثار ترابی لکھتے ہیں۔ ”داغ عشق کی والہانہ سرمستی اور حسن کے بے تابانہ خود سپردگی کے شاعر ہیں۔ محبت اور معاملات محبت کی فطری اداو¿ں کے نباض اور معاملہ بندی کی پہلوداری کے ترجمان ہیں“۔ ڈاکٹر نثار ترابی نے داغ دہلوی کی زندگی،مشاغل اور احوال و آثار پر بڑی تحقیقی ،علمی اور ادبی رائے دی ہے جو قابل صد ستائش ہے۔ داغ دہلوی کے دواوین گلزار داغ،آفتاب داغ،یادگار داغ،فریاد داغ اور مہتاب داغ سے غزلوں کا انتخاب کیا ہے۔ کئی سال قبل داغ دہلوی کی ایک غزل کے مصرع طرح پر اسلام آباد کے ایک مشاعرہ میں غزل پڑھی تھی جو میرے غزلیات کے مجموعہ”اوج دار“میں درج ہے۔ مصرع طرح تھا۔ ”دل کا کانٹا زبان سے نکلا“۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں ....
اس طرح بات منہ سے نکلے ہے
تےر جیسے کمان سے نکلا
اس کی خاطر فضا ہے کنج قفس
جوپرندہ اٹھان سے نکلا
جعفری ہوش میں ذرا رہنا
کیا تمہاری زبان سے نکلا
جیسے اقوام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہوتی ہیں اسی طرح زبانیں بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہوتی ہیں۔ ولی اور زبان میں فرق ہوتا ہے۔ پرندو چرند کی بولیاں ہوتی ہیں۔ اﷲ نے حضرت سلیمان کو یہ علم عطا فرمایا تھا وہ پرندوں کی بولیاں سمجھتے تھے۔ ملکہ سیابلقیس کی حکومت کی حضرت علی خبر انہیں ہد ہد نے دی تھی۔ حضرتعلیؓ کو بھی یہ علم لدنی عطا ہوا تھا۔ وہ بھی پرندوں کی بولی سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ مسجد کوفہ میں برسرمنبر خطاب فرمارہے تھے۔ مسجد کے اوپر سے پرندوں کا ایک جھنڈ گزرا۔ آپ نے ان سے کچھ کہا۔ کمزور ایمان والے اور مقام ولایت و روحانیت سے نابلدو بے خبر کچھ سامعین نے بہ انداز استہزاءاستفسار کیا کہ یہ آپ نے کیا کہا اور پرندوں کو کیا پیغام دیا۔ ان کے انداز منافقت کو بھانپتے ہوئے آپ نے پرندوں کو واپس لوٹنے کا حکم دیا۔ پرندے مسجد کے صحن میں اتر گئے اور آپ نے کچھ مزید الفاظ فرمائے۔ یہ معجزہ کرامت باعث تقویت اہل ایمان ہوا۔ آج کی دنیا میں غیر ترقی یافتہ علاقائی زبانوں کو بولیاں کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں دیہاتی اور غیر تعلیم یافتہ لوگ مقامی بولیاں بولتے ہیں۔ ان کے علاوہ تعلیم یافتہ لوگ اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ بولیاں غیر ترقی یافتہ ،اردو ترقی پذیر اور انگریزی ترقی یافتہ زبان ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان انگریزی زبان ہے۔ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کے لئے فارسی زبان، مذہبی دانشوروں اور علماءکے لئے عربی زبان ،سائینس دانوں اور دانشوروں کےلئے انگریزی زبان ضروری ہے۔ زبان صرف زبان نہیں ہوتی۔ ہر زبان ادبیات، سماجیات، نظریات اور مذہبیات کی عکاس اور نمائندہ ہوتی ہے۔ زبان کے لوگوں کی نفسیات اور معاملات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انگریزی دان طبقہ عموماً روشن فکر اور آزاد خیال ہوتا ہے ۔ انگریزی دانوں کی سوچ عقلیت پسند اور استدلالی ہوتی ہے۔ اسکے برعکس عربی دان مذہبی و مسلکی ہیں۔ انکی سوچ پر مذہبیات کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ عزبی زبان قرآن مجید کی تفہیم میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ زبان کا روزگار سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان چونکہ ایک قومی ترقی یافتہ زبان سے محروم ہے اس لئے اقتصادی و مالی بہتری کےلئے لوگ انگریزی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان ہمسایہ ملک چین عصر حاضر میں سائینسی اور اقتصادی ترقی میں سپر پاور بن چکا ہے۔ امریکہ اور یورپ چینیوں کی اقتصادی ترقی سے خائف ہےں۔ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے۔ بھارت کے شرسے بچنے کےلئے چین پاکستان دوستی اور تعلقات کی مضبوطی اشد ضروری ہے۔ پاکستانی اب چینی زبان سیکھ رہے ہیں۔ چینی زبان غالباً دنیا کی واحد زبان ہے جسکے حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ یہ ”صوری زبان“ ہے یعنی ہر لفظ کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ دنیا کی مشکل ترین زبان ہے تجارتی و قومی تعلقات کیلئے چینی زبان کا سیکھنا پاکستانیوں کیلئے ضروری ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

epaper

ای پیپر-دی نیشن