اپنے اپنے دکھ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کچھ دوست بحراوقیانوس کے ساحل پر سمندر کی موجوں، تہہ در تہہ لہروں اسکی وسعتوں اور ہر رنگ ونسل کے لوگوں کی اٹکھیلیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ 2000ءکے آغاز کی بات ہے۔ ہمارے دوست صادق طاہر نے"نیویارک بار" کے امتحان کا ایک کوہ گراں سر کیا تھا اور اب وہ باقاعدہ طور پر امریکی عدالتوں میں پیش ہو کر بے شمار دولت اور عزت کمانے کے قابل ہو گئے تھے۔ یہ محفل بھی ان کے اعزاز میں تھی۔ ہمارے ایک دوست اپنے والد صاحب کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے۔ چلتے چلتے گفتگو کا رخ پاکستانی سیاست اور پھر اس کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کی طرف مڑ گیا۔ کسی نے کہا کہ بھٹو کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ ایک اور دوست نے کہا کہ اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد انہیں قومی انتخابات کروا کر نیا مینڈیٹ لینا چاہئے تھا۔ ایک رائے یہ بھی تھی ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاءالحق کو چیف آف آرمی سٹاف نہیں بنانا چایئے تھا۔ ایسے میں ہمارے دوست کے والد نے کہا کہ دیکھیں جی اور باتیں تو چھوڑیں، بھٹو کے دور میں چینی بڑی نایاب اور مہنگی ہوگئی۔ جب کوئی دوست کسی سیاسی رائے کا اظہار کرتا تو وہ پھر سے دہراتے کہ چینی بہت مہنگی ہوگئی تھی۔ باربار چینی کاہی ذکر ہونے کے بعد ایک دوست نے ٹوہ لگائی تو معلوم ہواکہ گجرات کے کسی نواحی علاقے میں ان کی جلیبیوںکی دکان تھی۔ اور انہیں بھٹو سے اگر کوئی گلہ تھا تو یہی کہ چینی بہت مہنگی اور نایاب ہوگئی تھی۔ ایسے ہی ہمارے شہر کے صرافہ بازار میں ایک کردار تھا، جو صاحب حیثیت، ایک دکان کامالک ،اورسیاسی و مذہبی گفتگو میں علمیت نہ ہونے کے باوجود ایک دلچسپ کردار تھا۔ خاص کر مذہبی مباحث میں سرگرم۔ وہ جب بھی کوئی بحث کرتا، کوئی شعر سناتا یا واقعہ یا لطیفہ تو اس کا موضوع ہمیشہ ایک مخصوص مذہبی گروہ کی مخالفت ہوتا۔ دیگر کوئی موضوع اس کا پسندیدہ نہیں تھا۔ گاہکوں سے فارغ ہوکر پھر اپنے اسی موضوع کی طرف لوٹ آتا۔ ایک بار بازار سے گذرتے ہوئے مجھ پر نظر پڑی تو بلا لیا۔ خاطر تواضع کی پھرپوچھا کہ لگتا ہے کچہری سے آرہے ہو۔ میرے جواب دینے سے قبل ہی کہا کہ آپ کے سیشن جج کا تعلق اسی مخصوص گروہ سے ہے کیا۔ میں نے کہا نہیں ان صاحب کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ پھراس کے بعد انہوں نے جو گفتگو کی اسے نقل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے ایک پلاٹ خرید اتھا۔مالک نے اس کی ملکیت کی درستگی کے بارے میں انہیں مطمئن بھی کردیا تھا اور پورے اطمینان کے بعد انہوں نے پلاٹ کی ساری رقم ادا کردی، پانچ سات ماہ گزرے ہوں گے کہ محرم الحرام کا مہینہ آگیا۔ مقامی انتظامیہ نے ان کے پلاٹ پر اعتراض لگا دیا کہ یہ ذوالجناح کے جلوس کی لائسنس یافتہ گزر گاہ ہے اس لئے اسے کسی رہائشی یا تجارتی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ نے پلاٹ بیچنے کی کوشش کی مگر جلوس کی گذر گاہ ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہ مل سکا۔ ایک بڑی رقم ڈوب گئی اور اس کے نزدیک اس فرقے کا ہر فرد قابل تنقید ٹھہرا۔اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے، دکانداری کرتے اور ہر قسم کی محفل میں گفتگو کرتے اس کا یہی موضوع ہوتا۔ ہمارے ایک اور دوست تھے اقبال باجوہ، پنجابی گانوں کے معروف شاعر الطاف باجوہ کے بڑے بھائی، بائیں بازو کے نظریات کے حامل۔ شہر بھر کے سوشلسٹ دانشوروں کی محفل کی جان اور اپنے نظریات کے پرچارک وجیہہ داز قد اور کسرتی جسم کے مالک جب MRD کا قیام عمل میں آیا تو جمہوریت کی بحالی وبقاءکیلئے دن رات کام کیا۔ فوجی حکومت کی سختیوں کا بھی مقابلہ کیا۔ جمہوریت کے لئے اپنا کاروبار تک تباہ کرلیا۔ پھر جب محمد خان جونیجو کی حکومت آئی اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ختم ہوا تو اقبال باجوہ نے ایک بار پھر اپنے کاروبار پر توجہ دی بازار کی "انجمن تاجراں" کا انتخاب ہوا تو ایک بڑی برادری نے تمام نشستیںجیت لیں۔ باجوہ صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیاں بے پایاں ہیں، لہذا وہ بازار کا الیکشن جیت جائیں گے، مگر چند ووٹ ملے تو انہوں نے اسی وقت اعلان کردیا کہ "اب جمہوریت پر سے میرا ایمان اٹھ گیا ہے" پھر جب تک وہ زندہ رہے جمہوریت کے خلاف اپنے وقت کے ایک جمہوریت مخالف کالم نگاربن کر جئے۔ایسے ہی ایک زاہد حسین بخاری ہوا کرتے تھے، اب بھی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور شیخوپورہ سے ان کا تعلق تھا۔قابل وکیل تھے، جلد ہی ہائی کورٹ کے جج کے عہدے تک بھی پہنچ گئے۔ کارکردگی اچھی رہی مگر شہرت کی حفاظت نہ کرسکے۔ ان کی ایک بیٹی تھیں بخاری پاکستان پیپلز پارٹی کی جیالی کارکن اور اپنے والد کی وجہ سے پیشہ وکالت کے علاوہ سیاست میں بھی آئیں اور پیپلز پارٹی نے انہیں پنجاب اسمبلی کارکن بنواءدیا۔ جب تک وفاق میں زرداری صاحب کی حکومت رہی وہ "دل وجان سے"پیپلز پارٹی کیلئے کام کرتی رہیں اور بڑی مراعات بھی لیں۔ گھر بار میں خوب رونق رہی وارے نیارے ہوگئے۔ پھر عقلمند باپ نے مشورہ دیا بیٹی آئندہ دور پیپلز پارٹی کا نہیں تم مسلم لیگ (ن) کا انتخاب کرلو ۔اور یوں عظمی بخاری (ن ) لیگ میں شامل ہوکر ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں جیسے وہ آصف زرداری،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا دفاع کیا کرتی تھیں ویسے ہی اب انہوں نے نواز شریف، شہباز شریف، کلثوم نواز اور مریم نواز کا دفاع بھی کرنا شروع کر دیا۔ مگر پیپلز پارٹی کے سیاسی دفاع اور (ن) لیگ کے سیاسی دفاع میں فرق تھا۔ پیپلز پارٹی والے میڈیا پر پارٹی قیادت کے دفاع کیلئے اخلاق کی ایک حد سے آگے نہیں جاتے تھے۔ میڈیا پر سامنے بیٹھے ہوئے مخالف کی عزت کرتے تھے۔ کسی پر الزام یا بہتان تراشی کرنے سے پرہیز کرتے۔ خیال تھا کہ عظمی بخاری شائد خاندانی نجابت کی بناءپر اس سطح پر نہ آسکیں، مگر انہوں نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے فیصلے کے بعد یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا اور کہ "میرا جی چاہتا ہے کاپنے وکالت کے کالے کوٹ کو آگ لگا دوں" عظمی بخاری نے اپنے ہی اس کالے کوٹ کو آگ لگانے کی بات کردی جو انہوں نے کبھی پہنا اور کبھی نہ پہنا۔ یہاںتک تو سب باتیں معاشرے میں پائے جانے والے عام کرداروں کے مخصوص رویوں کی تھیں۔ اب سنیئے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق کو جو افغانستان کا ایک "خاص تحفہ" اکثر استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے محمود خاں اچکزئی کی طرح حق نمک اداکرتے ہوئے کہا کہ "اب ہم کشمیری سوچیں گے کہ کیا پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جائے یا نہیں" یہ بیان بھی انہوں نے نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد دیا۔ آزادی کی وہ جنگ جو کشمیر ی نوجوان ایک عرصہ سے لڑ رہے ہیں۔ مظفر وانی کی شہادت کے بعد جب نقطہ ءعروج پہنچی اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے گھر گھر پاکستان کے جھنڈے لہرادیئے۔ اور کشمیر کی پہاڑیاں، وادیاں دریا اور اس کا چپہ چپہ پاکستان زندہ بادکے نعروں سے گونج اٹھا تو ہمارے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے اپنے "مخصوص لمحات" میں آزادی کی اس تحریک کو ایک نااہل اور بددیانت وزیر اعظم کی خوشامد کیلئے سبوتاژ کرنے کی مکروہ کوشش کی ۔دراصل کوئی جلیبیاں بیچنے والا ہو یا کسی کے پلاٹ کا کوئی قانونی تنازعہ ہویاکسی ابن الوقت ایم پی اے کے مفادات کا تقاضہ یا کسی متنازعہ علاقہ کے نوکر پیشہ وزیراعظم کا مفلوج اقتدار ہو۔ ہر کسی کے اپنے اپنے دکھ ہوتے ہوتے ہیں۔ زمان و مکاں سے ماوراءبحراوقیانوس سے لے کر گوجرانوالہ کے صرافہ بازار اور عظمی بخاری سے لے کر آزاد کشمیر کے وزیراعظم تک یکساں ذاتی مفادات کی جنگ ہے۔ مجھے رسول حمزہ توف کاایک جملہ یا د آگیا "بچہ دوسال کی عمر میں بولنا سیکھ لیتا ہے اور آدمی کو ساٹھ سال کی عمر میں جاکر بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کب چپ رہنا ہے" ۔
پس تحریر:۔ماہ ستمبر اپنے آخری روز ہمارے دوست رانا مبارک علی خاں ایڈووکیٹ کو بھی اپنے ساتھ اس دار فانی سے لے گیا۔اور دل وجگر کو اداس کرگیا۔