• news

ختم نبوت والے حلف نامے کی بحالی کا بل سینٹ سے بھی منظور: مشاہد اللہ‘ پی ٹی آئی ارکان میں تلخی

اسلام آباد(خبر نگار + نوائے وقت رپورٹ) سینیٹ نے بھی ختم نبوت والے حلف نامے کی بحالی کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں اجلاس ہوا۔ وزیر قانون زاہد حامدنے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ تمام محنت کے باوجود ایک نقطہ باقی رہ گیا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم اس ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہیں تاہم ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی میں اپوزیشن کو بھی نمائندگی ملنی چاہئے۔ سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور عقیدہ ختم نبوت پر حملہ کرنے والا اپنی موت کو خود دعوت دے گا۔ چیئرمین میاں رضا ربانی نے پینل آف پریزائیڈنگ آفیسرز کے ناموں کا اعلان کیا جن میں سینیٹر محسن لغاری، سینیٹر احمد حسن اور سینیٹر مشاہد حسین سید شامل ہیں۔ سینیٹ میں خیبر پختونخوا میں کھاد کی ترسیل سے متعلق سوالات کے جواب سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں توسیع کی منظوری دے دی گئی۔ سینیٹ ارکان نے کہا ہے کہ مہنگائی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ارکان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا۔ ارکان نے کہا کہ پی آئی اے کے طیارے کی گمشدگی کے معاملہ کی تحقیقات کرائی جانی چاہئیں۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہر شخص کو اداروں کا احترام کرنا چاہئے اور اداروں میں تقسیم سے گریز کرنا چاہئے۔ سینیٹر سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ پی آئی اے کے جیٹ ایئر بس طیارے 310 کی گمشدگی کے معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ ہمیں ایک بار پھر سیاسی اور سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کھل کر ون بیلٹ ون روڈ کی مخالفت کر رہا ہے ہمیں اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ملک کو چیلنجوں سے نکالنا قومی فریضہ ہے۔ اس وقت ہمیں اتحاد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال دگر گوں ہے۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت ملک کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ اور فوج ملک کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ اداروں میں تصادم اور بحرانوں کی وجہ سے پاکستان کے دشمن کو موقع مل رہا ہے۔ کئی مہینوں سے ملک کو ایک اکھاڑہ بنایا ہوا ہے، اس وقت ٹیلی ویژن پر نیب کورٹ کے سوا کچھ نہیں چل رہا، ہمارے لوگ جب جیلوں میں ہوتے ہیں اور ان کے گھروں میں میتیں ہوتی ہیں تو ان کو نہیں ملنے دیا جاتا، سب کو ایسے موقع پر ریلیف ملنا چاہئے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ پی آئی اے کے جہاز کی گمشدگی انتہائی تشویش کا باعث ہے، مالٹا میں کھڑے اس جہاز کی پارکنگ فیس بھی پی آئی اے ہی ادا کر رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ملک کو پارلیمان ہی بحران سے نکالے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بے یار و مددگار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باقی اداروں کے لئے قانون ہے کہ ان کے خلاف بات نہ کی جائے، صرف پارلیمان کے لئے ایسا قانون نہیں ہے۔ مشاہد اﷲ خان نے کہا نواز شریف کے خلاف بین الاقوامی سازش کی گئی اور سارے ایجنٹ پاکستان میں ہیں۔ نواز شریف کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے سوا چار سالوں میں ملک کے حالات کو تبدیل کیا۔ پانامہ کا کوئی کیس نہیں تھا، پانامہ میں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں وہ سب یہاں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کو ایگزیکٹو آرڈرز اور فیصلوں کے ذریعے ان کی پارٹی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لیڈر وہی ہوگا جسے پارٹی چاہے گی۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید محاذ آرائی نہیں، ہم متنازعہ ترین جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش ہوئے۔ ہم نے اداروں پر سازش کا کوئی الزام نہیں لگایا، پانامہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جسے پاکستان میں ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔ سعد رفیق نے کہا کہ سیاست کے میدان میں غلطیاں کس نے نہیں کیں، خرابیاں کس سے نہیں ہوئیں، جو گناہ ہمارے کھاتے میں ڈالے گئے ہیں وہ انہوں نے خود کئے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این آر او کیوں ہوتے ہیں، سیاستدان مجبور ہوتے ہیں، چالیس چالیس سال گذرنے کے باوجود ایک دوسرے پر تنقید سے باز نہیں آتے لیکن این آر او کی وجہ کا ذکر نہیں کرتے، کیا یہ اچھی بات ہے کہ ہر وزیراعظم کو کرپٹ کہہ کر نکالا گیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہم نے نہیں کیا، سجاد علی شاہ نے خود کیا تھا۔ جسٹس قیوم اگر اتنے ہی بُرے تھے تو انہیں اٹارنی جنرل پی پی نے بنایا تھا، یہ بھی سامنے رکھا جائے۔عدالتی فیصلوں پر تنقید محاذ آرائی نہیں، ہمیں گاڈ فادر، مافیا اور دہشت گرد کہا گیا، ہم سپریم جوڈیشل کونسل میں جا سکتے تھے لیکن نہیں گئے تاکہ محاذ آرائی نہ بڑھے۔ ہم متنازعہ ترین جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ ایک رکن نیب کو مطلوب تھے، ایک کے رابطے کے بارے میں بتایا، دو فوجی آفیسر جے آئی ٹی کا حصہ نہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ جو لوگ پانامہ پانامہ کرتے تھے وہ 456 افراد کو بھول گئے ثابت ہوا کہ آپ بدنیت تھے نواز شریف سی پیک کے حق میں تھا پانامہ ایک بین الاقوامی سازش تھی جس کے ایجنٹس پاکستان میں تھے جو سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ اور افواج کے ترجمان بنے ہیں انہیں کس نے کہافوج کیلئے باتیں اور سپریم کورٹ کے جج کو شرمناک کہنے والے آج ان کے وفدار بنے ہیں دو افراد زیادہ ترجمانی کر رہے ہیں اتنے بدنام افراد کا نام نہیں لوں گا سیاسی لوگ ان طاقتوں کی ایجنٹیاں نہ کریں جو عوامی لیڈرز سے زیادتی کرتے ہیں نواز شریف کو عوام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا عائشہ گلالئی کو کوں گندے میسجیز بھیجتا تھا مشاہد اللہ کے بیان پر اعظم سواتی نے احتجاج کیا۔مشاہد اللہ اور تحریک اصناف ممبران میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں کسی کو دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دوں گا ایوان سے ممبران کو نکال بھی سکتا ہوں بعد ازاں اجلاس آج دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔سینیٹرز نے آئی ایس آئی کے سابق سر براہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی اچانک قبل از وقت ریٹائر منٹ کے پیچھے محرکات کے حوالے سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام ف کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے اجلاس کے دوران کہا کہ ایک تجربہ کار جنرل نے کیوں وقت سے پہلے استعفیٰ دیا ہے کوئی سیاسی جماعت ہے جو اس حوالے سے سوال کرے، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی سوال نہیں کرے گا کیوں کہ ان کو پتہ ہے کہ اگر وہ ناراض ہوئے تو انتخابات میں پتہ نہیں کیا حال ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر سلیم ضیا نے اس موقع پر کہا کہ ایک وزیر استعفیٰ دے تو اس کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال دیئے جاتے ہیں لیکن ایک آرمی افسر استعفیٰ دے تو کوئی سوال نہیں کرتا۔

ای پیپر-دی نیشن