متحدہ عرب امارات میں کرکٹ نہیں وکٹ کا کھیل کھیلا گیا
پاکستانی ٹیم دبئی میں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا ٹیسٹ بھی ہار گئی اور سری لنکا کی ایک کمزور ٹیم یہ سیریز جیت گئی۔ متحدہ عرب امارات میں کرکٹ نہیں کھیلی گئی بلکہ وکٹ وکٹ کھیلی گئی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اتنی گندی وکٹ پر کم ہی ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہوں گے۔ دونوں ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے ٹاس جیتنے والی ٹیم کھیلے بغیر ہی یہ ٹیسٹ جیت چکی ہوتی تھی کیونکہ ٹاس جیتنے والی ٹیم کو پتہ تھا کہ یہ وکٹ پہلے دن 100 فیصد بیٹسمینوں کا ساتھ دے گی۔ دوسرے دن فرق 70 اور 30 ہوجائے گا۔ تیسرے دن پچاس پچاس فیصد بیٹسمینوں اور بالروں کے لئے ہوگا اور چوتھے پانچویں یہ وکٹ گاما پہلوان کے اکھاڑے کا منظر پیش کرے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ٹاس جیتنے والی ٹیم دونوں ٹیسٹ جیت گئی اسی لئے پہلے دن ہی وقت نیوز ٹی وی پروگرام میں کہہ دیا تھا کہ یہاں کرکٹ کم اور ٹاس کا عمل دخل زیادہ ہوگا۔ ایسی کرکٹ سے بہتر ہے کہ ٹیسٹ میچ دبئی میں نہ کھیلے جائیں جہاں سپنروں کی موج اور بیٹسمینوں کا کیریئر داﺅ پر لگ جائے۔ گیند چاہے باﺅلر کے ہاتھ میں ہو بیٹسمین کو فارورڈ ہی جانا ہوگا۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کو سیریس چوٹ نہیں لگی۔ کرکٹ میں بڑی مدت کے بعد دبئی کی وکٹ ایسی تھی جہاں بیٹنگ کرنا تو آخری دو دن ناممکنات میں سے تھا وہاں امپائری کرنا بیٹنگ سے بھی مشکل کام تھا۔ کھلاڑی کے بولڈ ہونے کے بعد تقریباً ہر گرنے والی وکٹ پر امپائروں کو تھرڈ امپائر کا سہارا لینا پڑتا تھا کبھی گیند نیچے رہ جاتا تھا کبھی اتنا زیادہ ٹرن ہوتا تھا کہ جج کرنا مشکل تھا کہ بال وکٹوں میں جارہی تھی یا باہر جارہی تھی۔ میں پاکستانی ٹیم کے کسی بھی بیٹسمین کو قصوروار نہیں ٹھہراتا کہ وہ خراب کھیلے ہیں یہاں بریڈمین بھی ہوتا تو کچھ نہ کرسکتا تھا۔ وکٹوں کی اتنی خرابی کے باوجود یہاں ون ڈے کرکٹ زبردست ہو گی۔کیونکہ پہلے دن وکٹ پر نمی ہوتی ہے۔ وکٹ بناتے وقت جو پانی وکٹ پر لگایا جاتا ہے وہ وکٹ کو اکھاڑہ نہیں بننے دیتا اور آسان لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہوگا ایسی وکٹوں پر ملک اور کھلاڑیوں کا نام داﺅ پر لگانے سے بہتر ہے یہاں کرکٹ خاص کر گرمیوں میں نہ کھیلی جائے۔ پاکستان یہ میچ تو اسی وقت ہار گیا تھا جب سری لنکا اس وکٹ پر لمبی لیڈ لے گیا تھا مگر دوسری اننگ میں وکٹ نے اپنا کام دکھایا اور سری لنکا 96 رنز پر آﺅٹ ہوگیا تو پاکستان کو جیت کیلئے 317 رنز کا ہدف ملا جو اس وکٹ پر بہت بڑا سکور تھا اور پاکستان کی 5 وکٹ 52 رنز پر گر گئیں تو میں نے پاکستانی شکست پر تبصرہ لکھ کر پاکستان کی اننگ کے خاتمے کا انتظار کرتا رہا کہ اسد شفیق اور سرفراز نے جیت کی امید دلا دی مگر اس وقت پر یہ بہت بڑا سکور تھا اور پاکستان شکست سے دوچار ہوگیا۔ ون ڈے کرکٹ میں وکٹ ایک دن میں خشک نہیں ہوتی اسی لئے دبئی شارجہ وغیرہ میں ون ڈے کرکٹ آئیڈیل ہے۔