• news

پاکستان میں بے ایمانی واحد کام ہے جو انتہائی ایمانداری سے کیا جاتا ہے: تجزیاتی رپورٹ

اسلام آباد (آن لائن) ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے خوشحالی شفاف نظام کیلئے چینی طرز کی انسداد کرپشن مہم کا آغاز ناگزیر ہے، پاکستان میں بے ایمانی واحد کام ہے جو انتہائی ایمانداری سے کیا جاتا ہے، پاکستان میں رشوت سیاست سے بہتر کوئی کاروبار نہیں،20 ہزار کی سرکاری نوکری کے لیے 20 لاکھ رشوت لی جاتی، سیاست کے کاروبار میں انتخابی مہم پر 5 کروڑ لگا کر 50 کروڑ کمانے کا ٹارگٹ مقرر کیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق چین میں کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز 2012 میں صدر شی جن پنگ کی قیادت میں ہوا۔ مہم نے چین کی عوام کو امید کی نئی کرن دکھائی اور 2013 سے 2017 تک 13 لاکھ 40 ہزار لوگوں کو کرپشن کے الزام میں سزا مل چکی ہے۔2017 کے صرف پہلے 6 ماہ میں 13 لاکھ 10 ہزار سے زائد متاثرین نے کرپشن کے خلاف شکایات سینٹرل کمیشن آف ڈسپلن انسپکشن میں درج کروائیں۔ اِن میں سے 2 لاکھ 60 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی اور 2 لاکھ 10 ہزار مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ اِن سزا پانے والوں میں صرف کمزور اور چھوٹے سرکاری افسر شامل نہیں تھے بلکہ اِن میں وزارتوں اور صوبائی انتظامیہ کے 38 سینئر افسران اور پریفیکچر لیول کے ایک ہزار لوگ بھی شامل تھے۔آپ کو یہ جان حیرت ہوگی کہ 2016 میں سابقہ جنرل جاﺅ بوگژانگ کو رشوت لینے کے الزام میں عمر قید کی سزا دی گئی۔ انہیں اپنے عہدے سے فارغ کیا گیا۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے تمام اثاثے بھی چینی حکومت کے نام کریں۔ جولائی 2017 میں سن ژانگژائی کو اپنے عہدے کے غلط استعمال کرپشن کے الزام میں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ سن ژانگژائی پانچ برس تک حکومتی پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ وزیرِ زراعت کے طور پر بھی حکومت کا حصہ رہے ہیں اور حکمران جماعت کے کور ممبران میں بھی شامل ہیں۔ چینی وزیرِ ریلوے Liu Zhijun کو 2013 میں کمیشن لینے، عہدے کے غلط استعمال اور سامان کی خریداری میں کرپشن کا الزام لگا جس کے ساتھ ہی ان کا نام چینی معاشرے کے لیے ناسور بن گیا۔ اِس کے برعکس پاکستان میں حکومتی سطح پر کرپشن کے معاملے کو سمجھنے کیلئے سابق وفاقی وزیر کا یہی بیان کافی ہے کہ "کرپشن کرنا سیاستدانوں کا حق ہے“ حکومتی حلقوں میں یہ رائے عام ہوچکی ہے کہ کرپشن پاکستان کا کلچر ہے اور اگر ہزار لوگوں میں سے کوئی ایک کرپشن نہیں کر رہا تو وہ دراصل اپنا نقصان کر رہا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ پاکستان میں رشوت اور سیاست سے بہتر کوئی کاروبار نہیں ہے۔ 20 ہزار کی سرکاری نوکری کے لیے 20 لاکھ رشوت لی جاتی ہے یہ 20 لاکھ مکمل حساب کتاب کے بعد ہی بطور رشوت دیے جاتے ہیں کہ یہ رقم کتنی دیر میں ریکور کی جاسکتی ہے۔ ملکی اور عوامی سطح پر کرپشن سے متعلق اِسی رائے نے پاکستان کو دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں کھڑا کر دیا ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن کے میدان میں پاکستان دنیا کے 176 ممالک میں 116 نمبر پر کھڑا ہے، جبکہ اِس کے برعکس ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک بھارت اور ہمارے بعد آزاد ہونے والا چین 79 نمبر پر کھڑے ہیں۔ ادارتی کرپشن میں دنیا کے 144 ممالک میں پاکستان 129 نمبر پر ہے۔ رشوت میں ہمارا نمبر 123واں ہے۔ اقربا پروری میں پاکستان کا 101واں اور حکومتی پالیسیوں میں ٹرانسپیرینسی کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 108واں ہے۔ ملکِ پاکستان کی بد قسمتی دیکھیے کہ اربوں روپوں کی کرپشن کرنے کے بعد بھی ہماری عدالتیں کسی ایک بھی حکمران کو سزا نہیں دے سکیں، ہماری اسمبلیوں نے قانونی طور پر یہ طے کرلیا کہ کوئی بھی نااہل شخص چاہے وہ نااہلی جھوٹ کی وجہ سے ہو یا کرپشن کے مینار کھڑے کرنے کی وجہ سے ہو، وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا صدر بن سکتا ہے۔کرپشن کی اِس پذیرائی کے بعد اب مسلم لیگ ن ممکنہ طور پر ایک ایسا بل لانے کا سوچ رہی ہے جس کے مطابق کوئی بھی سرکاری عہدیدار اپنی جائیداد کے ثبوت دینے کا پابند نہیں ہوگا بلکہ الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ثابت کرے کہ ملزم نے یہ جائیداد رشوت کے پیسے سے بنائی ہے۔
تجرباتی رپورٹ

ای پیپر-دی نیشن