پرویز مشرف سے اختلاف کی ابتدا کارگل سے ہوئی : راجہ محمد ظفر الحق کا انٹرویو
نواز رضا
راجہ محمد ظفر الحق کا شمار ملک کے سینئر ترین پارلیمنٹرینز میں ہوتا ہے وہ نصف صدی سے پاکستان مسلم لیگ سے وابستہ چلے آ رہے ہیں ۔اس وقت وہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر ترین رہنما ہیں مسلم لیگ کی سوچ ان کے خون میں رچی بسی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان ‘اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے وقف کررکھی ہے۔ راجہ محمد ظفر الحق میاں نوازشریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ سیاست سرد ہو یاگرم وہ ہر وقت نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نوازشریف کو جلاوطن کیا گیا تو انہوں نے ان کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کاعلم تھامے رکھا اور اس کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ وہ سینیٹ میں بار ہا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔وہ اس وقت قائد ایوان ہیں اور سینیٹ میں حکومت کی جانب سے اقلیت میںہونے کے باوجود قانون سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ءکو راجہ محمد ظفر الحق‘ نوازشریف کابینہ کے اہم رکن تھے ان سے 12 اکتوبر 1999ءکے حوالے سے” ایک نشست ہوئی جس میں انہوں نے یادوں کے دریچے واکئے ۔راجہ محمد ظفر الحق کو جب یاد دلایا گیا راجہ صاحب! آپ 12 اکتوبر 1999ءکو نوازشریف کابینہ کے رکن تھے ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم تھی وہ کیا عوامل تھے کہ اس وقت کے برطرف شدہ آرمی چیف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا“ اس پر راجہ محمد ظفر الحق گہری سوچ میں ڈوب گئے اور 18 سال پرانے واقعہ کی تلخ یاد تازہ کرنے لگے۔ انہوں نے بتایاکہ” 12 اکتوبر 1999ءکو پاکستان کی سیاسی‘ جمہوری‘ تاریخ کا سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا ہم اس کو بھلا دینا چاہتے ہیں لیکن ہر سال جب 12 اکتوبر آتا ہے تو زخم تازہ ہو جاتے ہیں، خدا نہ کرے اس جیسا واقعہ کبھی پیش آئے۔ جب یہ دن آتا ہے تو قومی سلامتی اور جمہوری نظام کو پہنچنے والے نقصانات سامنے آن کھڑے ہوتے ہےں۔ راجہ محمد ظفر الحق گویا ہوئے جنرل (ر) پرویز کے ساتھ اختلافات کی ابتداءکارگل میں ہونے والی مہم جوئی سے ہوگئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے حکومت کو اعتماد میں لئے بغیریعنی وزیراعظم نوازشریف ‘وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر امور کشمیر لیفٹننٹ جنرل (ر) مجید ملک سے مشورہ کئے” بغیر بدنام زمانہ کارگل آپریشن“ شروع کر دیا۔ جب میاں نوازشریف کو ہر طرف سے اطلاعات آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے مندرجہ بالا شخصیات کے علاوہ چوہدری نثار علی خان کے بڑے بھائی لیفٹنینٹ جنرل افتخار علی خان جو اس وقت سیکرٹری دفاع تھے اور پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو بلا کر پوچھا یہ کیا ہورہا ہے ؟ انہوں نے میاں صاحب کو بتایا کہ یہ سب کچھ جنرل مشرف اوران کے حواریوں کا کیا دھرا ہے، لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان نے کہا کہ یہ سب’ ’پیپر ٹائیگرز“ نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیا ہے۔ اس کے سنگین نتائج پاکستان کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ ہم میں سے کسی کو اس بات کا علم نہیں یہ سب کچھ بالا ہی بالا ہوا ہے ۔ حتیٰ کہ آرمی ‘نیوی اور ائیرفورس کے ذمہ دار لوگوں کو بھی علم نہیں۔ جس پر میاں نوازشریف نے ٹیلی فون پر جنرل پرویز مشرف سے اس معاملہ پر بات کی اور پوچھا” جنرل مشرف یہ آپ نے کیا شروع کر رکھا ہے۔ جس کا کسی کو علم نہیں حتٰی کہ وزیر امور کشمیر جو اس علاقے میں مختلف حیثیتوں سے کمانڈ کرتے رہے ہیں اور وزیر خارجہ جنہیں پوری دنیا کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس پر مشرف نے کہا ”اگر آپ کہتے ہیں توہم بند کر دیتے ہیں اور جو لوگ بلند وبالا پہاڑوں پر بھیجے گئے ہیں واپس بلوالیتے ہیں“ میاںصاحب نے کہا کہ وزارت خارجہ میں چیدہ چیدہ لوگوں کی میٹنگ کریں اور اس پر کوئی معقول فیصلہ کریں۔ چند روز بعدسرتاج عزیز کے دفتر میں میٹنگ بلائی گئی جس میں فوج کی طرف سے جنرل سعید ا لظفر‘لیفٹیننٹ جنرل عزیز‘ نیوی کی طرف سے ڈپٹی چیف اور ائیر مارشل علی الدین شریک ہوئے کابینہ کی طرف سے سرتاج عزیز‘ لیفٹیننٹ جنرل مجید اور سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل افتخارعلی خان بھی موجود تھے۔ فوج کی طرف سے بریفنگ دی گئی کہ اس آپریشن کا مقصد کیا ہے اور کہا گیا کہ” ہم کارگل کی طرف جانے والی بڑی سڑک بند کرنا چاہتے ہیں اس پر لیفٹیننٹ جنرل مجید ملک مرحوم نے کہا کہ کارگل کی چوٹیوںں پر چند دن سے زیادہ ٹھہرناممکن نہیں ہے کیونکہ شدید سرد موسم آپ کا سب سے بڑا دشمن ہوگا اگر وہ سڑک ہی بند کرنی ہے تو کم بلندی پراسے آسانی سے بند کیا جاسکتا تھا۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا نیوی اور ائیر فورس کے نمائندوں نے یہ اعتراض کیا کہ ہمیں آپریشن کی کوئی اطلاع ہی نہیں دی گی اور اگر جنگ پھیل جاتی ہے تو ہمارے لیے بے خبری میں دفاع کرنا مشکل ہوگا اس سے وہ بریف کررہے تھے بے بس دکھائی دیتے تھے ہم نے ایک مقصد کے لیے آپریشن شروع کیا اگرآپ یہ سمجھتے ہیں یہ غلط ہے تو ہم اسے بند کر دیتے ہیں اس پر میں نے کہا کہ اعتراضات اس آپریشن کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں ان کو دور کیاجائے آپ فوری طور پر پسپاہوئے تو زیادہ جانیں ضائع ہوں گی لہذا فوری طور پر اس کی خامیوں کو دور کیا جائے ۔میٹنگ میں کچھ دیر کے لیے وقفہ ہوا توجنرل مشرف نے میاں نوازشریف سے کہا کہ ”جنگ بندی کا اہتمام“ کیا جائے جس کیلئے انہیں امریکہ جانا پڑا ،وہیں پر امریکی صدر بل کلنٹن نے واجپائی سے بات چیت کرکے جنگ بندی کروائی ۔ بعد میںجب آپریشن کارگل کے پر آوازیں اٹھنے لگیں کہ ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جن کی وجہ سے پاکستان کو نامناسب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو ان لوگوں نے آپس میں طے کرلیا کہ ان میںسے کسی ایک کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو اس کا اکھٹے ہوکر جواب دیں گے۔ ایک طرف سابق فوجی افسروں کی طرف سے کارگل آپریشن پر تنقید جاری تھی دوسری جانب جنرل پرویز مشرف دورہ سری لنکا پر تھے جو ٹیک اوور کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اس وقت کے چند جرنیلوں نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کررکھا تھا 12 اکتوبر کو جوکچھ ہوا پہلے سے طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا۔ میرے خیال میں نوازشریف کی حکومت کارگل کے مس ایڈونچر کے بعد ختم کرنے کا فیصلہ کر لیاگیا تھا۔ راجہ محمد ظفرالحق نے پہلو بدلا اور 12 اکتوبر 1999ءکے واقعہ کو سمیٹنا چاہا ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر کے غیر آئینی اقدام کیلئے حکومت اور فوج کے مابین اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسا تھا۔بلکہ ان جرنیلوں کو”کارگل مس ایڈونچر “ کا سامنا تھا،اور احتساب کے خوف سے چند جرنیلوں نے تصادم کی راہ اختیا کر کے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل مشرف نے جمہوری نظام کی بنیادیں ہلا کررکھ دیں جو آج تک اس جگہ پر بحال نہیں ہوسکیں ۔خدا معلوم اس کے تباہ کن اثرات کو ختم کر نے میں کتنا عرصہ اور لگے گا ۔ ہماری حکومت آج بھی جمہوری نظام کے استحکام اور اقتصادی طورپر پاکستان کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کی کوششیںکر ر ہی ہے۔ اٹھارہ برس قبل صرف ایک شخص کے احتساب کے خدشے کے پیش نظرجمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیاجس سے جمہوری نظام میں رخنہ پڑا اورملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جب تک تمام ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام نہیں کریں گے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے راجہ صاحب ”12 اکتوبر 1999ءکو جب آرمی چیف نے ٹیک اوور کیا کہاں تھے اور آپ کا فوری طور پر کیا ردعمل تھا ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا 12اکتوبر 1999ءمیں برطانیہ کے دورے پر تھا میں اس وقت بی بی سی ہیڈ کوارٹر میں پاکستان اور خطے کے حالات کے بارے میں انٹرویو دے رہا تھا۔ بی بی سی کا ڈائریکٹر سٹوڈیو میں آیا کہ خبریں آرہی ہیں کہ فوج نے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے اس اقدام پر میں نے افسوس کااظہار کیا کہ اس طرز عمل سے پاکستان تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد زیر و پوائنٹ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس روز فلائٹ بند تھی اگلے روز لندن سے لاہور کے لئے فلائٹ لی اور میں پاکستان آگیا۔ لاہور ائیر پورٹ پر جہاز ایک طرف کھڑا کرکے مجھے جہاز سے اتارا دیا گیا۔ مجھے کچھ دیرکے بعد لاہور سے فوکر طیارے میں اسلام آباد لایا گیا۔ چنددن تک مجھے اپنے گھر میں نظر بند رکھا گیا اس کے بعدفوج کا پہرہ ختم کردیا گیاجسکے بعد صحافیوں نے رابطے کرنا شروع کر دئیے میں نے ان سے پوچھا ”راجہ صاحب پھر تو آپ نے مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا“ راجہ صاحب نے کہا جی ہاں ! ہم نے پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے تک ودو شروع کر دی 21،22 مسلم لیگی رہنماﺅں کے اجتماع میں رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس کا مجھے سربراہ بنا دیا گیا۔اس دوران جنرل مشرف کی طرف سے انہیں حکومت میں شامل کئے جانے کیلئے بڑی پرکشش پیشکش تھی ۔ مگر راجہ محمد ظفر الحق نے اس پیشکشں کو قبول نہ کیا۔ جس پر جنرل مشرف کی ان سے ناراضگی میں اضافہ ہوگیا ۔ انہوں نے بتایا یہ ناراضگی اس وقت تک رہی جب تک جنرل مشرف کی حکومت نے این اے54 کے انتخابی نتائج پرڈاکہ ڈال کر انہیں الیکشن میں کامیابی سے روک نہیں دیا۔ مگر میاں نوازشریف سے وفاداری اور جمہوری نظام کی بحالی کیلئے یہ فیصلہ ان کیلئے کوئی بڑی قیمت نہ تھی۔