تہمینہ دولتانہ منسٹر کالونی میں واک کر رہی تھیں پتہ چلا کہ فوج آ گئی ہے
فرخ سعید خواجہمسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنماءبیگم تہمینہ دولتانہ ایم این اے پنجاب کے معروف نواب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے دادا نواب اللہ یار اور ان کے بھائی نواب احمد یار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے جنہوں نے پاکستان کیلئے نوابی چھوڑی۔ بیگم تہمینہ دولتانہ کے والد میا ں ریاض دولتانہ اور ان کے چچا زاد بھائی میاں ممتاز دولتانہ کا شمار بھی تحریک پاکستان کے نمایاں کارکنوں میں ہوتا ہے۔ میاں ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ کونسل کے مرکزی صدر رہے۔ بیگم تہمینہ دولتانہ نے مسلم لیگ پنجاب کی جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور مسلم لیگ کی نہ صرف مرکزی نائب صدر رہیں بلکہ پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 1993ءاور 1997ءمیں وہ جنرل نشستوں پر وہاڑی سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئیں۔ 1997ءمیں نوازشریف کی کابینہ میں وہ وفاقی وزیر وومن ڈویلپمنٹ‘ سوشل ویلفیئر اینڈ سپیشل ایجوکیشن رہیں۔ 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ثابت قدم رہ کر آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد میں انہوں نے بے حدشہرت پائی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں انہوں نے این اے 168 اور این اے 169 وہاڑی سے جنرل نشستوں پر حصہ لیا لیکن انہیں کامیاب نہ ہونے دیا گیا ۔ بعد میں وہ مسلم لیگ (ن) کی خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پررکن قومی اسمبلی بنیں اور 2008ءکے الیکشن میں انہوں نے این اے 169 سے کامیاب ہو کر اپنی نشست واپس لی۔جبکہ این اے 168 سے وہ ہار گئیں۔ 2008ءمیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت میں بیگم تہمینہ دولتانہ کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کابینہ کی رکن بنیں۔ تاہم پارٹی فیصلے کے مطابق کچھ عرصے بعد ہی ساتھی وزراءسمیت علیحدہ ہو گئیں۔ الیکشن 2013ءمیں ایک مرتبہ پھر وہ جنرل نشستوں پر الیکشن ہار گئیں تاہم مسلم لیگ (ن) کی خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پرایک مرتبہ پھر رکن قومی اسمبلی مقرر ہوئیں۔ بیگم تہمینہ دولتانہ حکمران جماعت کی اہم رکن ہیں ۔ ان کے صاحبزادے میاں عرفان دولتانہ وہاڑی ہی سے پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ءکے حوالے سے یادیں تازہ کرنے کیلئے نوائے وقت نے بیگم تہمینہ دولتانہ سے انٹرویو لیا جو قارئین کیلئے پیش ہے۔
نوائے وقت: - 12 اکتوبر 2012 ءکے مارشل لاءکی اطلاع آپ کو کب اور کہاں ملی؟
تہمینہ دولتانہ:- میں اسلام آباد کی منسٹر کالونی میں واک کررہی تھی جہاں میں رہائش پذیر تھی۔ واک کے دوران ایک منسٹر صاحب کا پی اے میرے پاس آیا۔ منسٹر صاحب کا میں نام نہیں لینا چاہتی۔ پی اے نے کہا کہ مارشل لاءلگ گیا ہے جلدی گھر جائیں اور پیک کرکے یہاں سے نکل جائیں۔
نوائے وقت: - آپ کا ردعمل کیا تھا؟ اور آپ نے فوری طور پر کیا کیا؟
تہمینہ دولتانہ:- میں نے واک روک دی اور فوری گھر چلی گئی۔ میرے میاں چودھری زاہد واہلہ اس وقت حیات تھے۔ میں نے جو بات سنی تھی انہیں بتائی۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ وزیراعظم ہاﺅس چلتے ہیں۔ سو گاڑی نکالی اور ہم دونوں وزیراعظم ہاﺅس کی طرف گئے اور دیکھا کہ فوج ٹیک اوور کرچکی ہے۔ وہاں سے گاڑی موڑی تو پاکستان ٹیلی ویژن کے بند دروازوں کے اوپر فوجی چڑھ رہے تھے جبکہ کچھ کو ہم نے دروازے کو اوپر سے پھلانگتے بھی دیکھا۔ ہم واپس سیدھے منسٹر کالونی میںپہنچے۔
نوائے وقت: - پھر آپ لوگوں نے کیا کیا؟ کسی سے رابطہ کیا یا آپ لوگ بھی وہاں سے کہیں اور چلے گئے؟
تہمینہ دولتانہ:- ہمار ے گھر واپس آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد منسٹر کالونی کو بھی گھیر لیا گیا تھا اور جو جو جہاں جہاں موجود تھا ملازموں سمیت گھر میں بند کر دیئے گئے تھے۔ کسی کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی کوئی باہر سے آسکتا تھا۔ تاہم دو دن بعد میں نے گھر سے باہر نکل کر منسٹر کالونی کا راﺅنڈ کرنے کی اجازت مانگی جو مجھے دے دی گئی۔ منسٹر کالونی میں میاں یاسین وٹو‘ جاوید ہاشمی‘ مشاہد حسین سید‘ خواجہ آصف‘ کیپٹن حلیم صدیقی نظر آئے۔ مشاہد حسین سید کے گیٹ پر میں رکی اور وہاں کھڑے فوجی جوان سے کہا کہ براہ کرم مشاہد حسین سید کی اہلیہ کو بلا دیں۔ فوجی نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کسی سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں آپ یہاں سے چلی جاﺅ ۔میں نے اونچی آواز میں کہا ”واہ ایک عورت سے ڈرتے ہو“ میری آواز سن کر مشاہد حسین سید کی بیوی باہر آگئی اس نے کہا کہ کیا کررہی ہو‘ مارشل لاءلگ گیا ہے۔ میں نے کہا آﺅ مل تو لو۔ ہم آپس میں مل رہی تھیں تو مجھے دوسری منزل پر مشاہد حسین سید نظر آئے۔
نوائے وقت: -کب تک اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ؟
تہمینہ دولتانہ:- غالباً سات دن بعد ہماری نظربندی ختم کرنے کا فیصلہ ہوا اور فوجی منسٹر کالونی سے چلے گئے۔ میں نے منسٹر کالونی میں موجود وزراءکو اپنے یہاں کھانے کی دعوت دی۔ مشاہد حسین سید کو نہیں چھوڑا گیا تھا باقی جو ہمارے گھر میں جمع ہوئے ان میں خواجہ آصف‘ یاسین وٹو‘ کیپٹن حلیم صدیقی و دیگر تھے۔ ہم نے آپس میں طے کیا کہ ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ دوسری میٹنگ چودھری شجاعت حسین کے گھر ہوئی بعد میں ہمیں سمجھ میں آیا کہ کون ہمارے ساتھ تھا اور کون نہیں۔ دوسری میٹنگ کے بعد ہمارے بہت سے لوگ غائب کردیئے گئے۔ ہم پارٹی کے ساتھیوں سے ملتے اور غوروفکر کرتے رہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ نوازشریف کے کسی نہ کسی فیملی ممبر کو ساتھ لینا چاہئے۔ میں لاہور آئی اور قرآن پڑھانے والی خاتون کے روپ میں رائے ونڈ جاتی امراءجا پہنچی۔ میں نے آنکھوں کے سوا اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ فوجیوں نے گھر کے اندر جانے کی اجازت دے دی سو میں جب گھر میں پہنچی تو بیگم کلثوم نواز نے مجھے دیکھ کر حیرانگی سے کہا ”تہمینہ“ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا کہ ان آنسوﺅں کوبہنے نہ دینا وگرنہ غصہ کم ہوجائے گا ۔آپ کوشدت کے ساتھ حالات سے لڑنا ہوگا۔ وہ کہنے لگیں کہ میں گھریلو عورت ہوں تاہم انہوں نے اس کیلئے میاں شریف صاحب سے بات کرنے کا کہا۔ جب ان سے بات کی تو وہ کہنے لگے سوچنے کا وقت دو اور پھر انہوں نے اجازت نے دی۔
نوائے وقت: - بیگم کلثوم نواز کی گاڑی کرین سے کیوں اٹھائی گئی؟ آپ لوگ کہاں جانا چاہتے تھے؟
تہمینہ دولتانہ:- بیگم کلثوم نواز کو جب رائے ونڈ سے ماڈل ٹاﺅن آنے کی اجازت مل گئی تو ہم نے ہر ماہ قرآن خوانی میں خواتین کو مدعو کرکے میٹنگوں کا آغازکیا اور پھر ”مجلس پاکستان“ کا انعقاد شروع ہوا۔ جاوید ہاشمی‘ خواجہ سعد رفیق‘ زعیم قادری‘ چودھری صفدر الرحمٰن سمیت پارٹی کے بہت سے لیڈر اس میں شریک ہونے لگے ۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا ہم نے طے کیا کہ جی ٹی روڈ کی طرف نکلا جائے‘ باہر پہرے تھے تاہم بیگم کلثوم نواز اپنی گاڑی کے بجائے کسی اور شخص کی وائٹ ٹیوٹا کرولا میں اگلی نشست پر بیٹھیں۔ چودھری صفدر الرحمن ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ جاوید ہاشمی اور میں پچھلی سیٹ پر تھے‘ کلثوم بھابی کا ایک گارڈ بھی ہمارے ساتھ تھا۔ ہم کل تین گاڑیوں میں پہرے داروں کو چکمہ دے کر نکلے۔ پولیس ہمارے پیچھے تھی جس نے بالآخر نہر پر ہمیں جا لیا۔ ہم نے گاڑی اندر سے لاک کر لی تھی وہ کرین لے آئے اور ہماری گاڑی کو اس کے ذریعے گھسیٹتے ہوئے جی او آر میں لے آئے۔ فوجی پیچھے کھڑے تھے آگے پولیس تھی۔11 گھنٹے تک آنکھ مچولی جاری رہی۔ وہ کہتے تھے بیگم کلثوم نواز چلی جائیں‘ جاوید ہاشمی‘ صفدر الرحمن اور مجھے گرفتار کرنا ہے لیکن کلثوم بھابی اس پر آمادہ نہ ہوئیں۔ شدید گرمی کے موسم میں 11 گھنٹے ہم بھوکے پیاسے گاڑی میں بند رہے آخر میں ماڈل ٹاﺅن جانے کی اجازت دے دی گئی وہاں جاوید ہاشمی‘ صفدر الرحمن اور میں تین چار دن رہنے کے بعد رفوچکر ہوگئے۔
نوائے وقت: - چاغی کے سفر کا کوئی خاص واقعہ سنائیں؟
تہمینہ دولتانہ:- چاغی جاتے ہوئے ہمارا قافلہ وہاڑی کے قریب سے گزرا تو میں فرمائش کرکے قافلے کو وہاڑی لے گئی وہاں ہم پر سخت لاٹھی چارج ہوا‘ میرے ہی گھر میں بیگم کلثوم نواز‘ میاں منان اور مجھ پر لاٹھیاں برسیں۔ بیگم کلثوم نواز آج تک مجھے ازراہ مذاق کہتی ہیں کہ ہمیں اپنے گھرلے جاکر لاٹھیاں کھلوائیں۔
نوائے وقت: - موجودہ حالات اور 1999ءکے حالات میں آپ کیا مماثلت دیکھتی ہیں؟
تہمینہ دولتانہ:- مسکراتے ہوئے۔ یہ 1999ءکا پاکستان نہیں ہے۔ جناب اس وقت پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے سرحدوں کی صورتحال اور بین الاقوامی حالات کا تقاضا ہے کہ سب کو اس صورتحال کو سمجھنا چاہئے۔ دیکھئے افواج پاکستان دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دیں اور نظریاتی سرحدوں کا تحفظ سیاسی لوگوں کو کرنے دیں۔ آپس میں کوئی مسئلہ ہے تو مل بیٹھ کر میز پر بات کریں۔ ایک نو آموز سیاستدان جس کے اپنے بچے یہودی کے گھر میں پل رہے ہیں اور جسے خواتین کی عزت تک کا خیال نہیں اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ سول اور ملٹری کو باہم مل بیٹھنا چاہئے اور اصلاح احوال کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔آج ہم 1999ء جیسے جوان تو نہیں لیکن ہماراعزم جوان ہے اور نوازشریف ہمارا لیڈر ہے ،جو حق پر ہے۔ اس کا ہر حال میںساتھ دیں گے تاہم پاکستان اور سب کا مفاد اسی میں ہے کہ مل بیٹھ کر مسائل حل کریں۔