• news
  • image

12 اکتوبر1999ءکا چشم دید گواہ ہوں

سلیم ناز
12 اکتوبر1999 ء وہ سیاہ د ن ہے ‘جب ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے منتخب اسمبلیوں کی بساط لپیٹ کر نوازشریف کی جمہوری حکومت کو چلتا کیا۔جس کے بعد اس نے 8 برس تک جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک کو تختہ مشق بنائے رکھا۔ درحقیقت منتخب حکومت کی تین جرنیلوں سے بازپرس کی ہدایت اس کے اور جنرل پرویز مشرف کے مابین کشیدگی کا باعث بنی۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف سے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی سے کارگل کے محاذ پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اس کی پاداش میں تین جرنیل عزیز احمد خان‘ جنرل محمود احمد اور میجر جنرل جاوید حسن سے جواب طلبی کے ساتھ ساتھ ان کو برخاست کیا جائے۔مگر اس کے فوراً بعد کور کمانڈر کی کانفرنس میں نوازشریف کی اس ہدایت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے ہاتھوںجس روز نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اس روز مسلم لیگی رہنماجاوید ہاشمی نواز شریف کے ساتھ ملتان شجاع آباد میں ایک جلسے میں شریک تھے۔جہاں سید جاوید علی شاہ نے ابھی استقبالیہ تقریر کا آغاز کیا تھا کہ میاں نوازشریف کے پاس پڑے ہوئے ہاٹ لائن فون کی گھنٹی بجی اور انہیں فوجی نقل و حرکت کی اطلاع ملی ۔ تقریباً2 منٹ میاں نوازشریف نے یہ کال سماعت کی اور اپنے سیکرٹری کو بلا کر ایک چٹ پر کچھ لکھ کر دیا۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے دیگر تقاریر منسوخ کر دی گئیں۔ میاں نوازشریف اپنے مختصر خطاب کے بعد ہیلی پیڈ کی جانب بڑھنے لگے۔ راستے میں انہوں نے ملٹری سیکرٹری سے پوچھا ”کچھ ڈویلپمنٹ ہوئی جواب ملا نہیں“ لہٰذا جلسہ اور بعد کی تمام مصروفیات ترک کر کے میاں نوازشریف اسلام آباد پہنچے۔فوج کی کمان تبدیل کئے جانے کے بعد جب وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے کر حکومت برطرف کردی گئی تواس کے بعد پرویزمشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور آئین معطل کردینے کا اعلان کیا۔ نوازشریف کے قریبی ساتھی مخدوم جاوید ہاشمی ملتان سے واپس آ کر اس دوران منسٹر کالونی اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر تھے جہاں انہیں اپنے گھر تک محدود کر دیا گیا جبکہ بیشتر سیاستدان اور افسران گرفتار کر لئے گئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے گزشتہ دنوں ان واقعات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا میں 12 اکتوبر کا چشم دید گواہ ہوں۔ اسی عنوان سے میری کتاب ”ہاں میں باغی ہوں“ میں ایک مضمون بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا میاں نوازشریف شجاع آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرنے آئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جلسے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایک ٹیلی فون کال کے بعد ماحول میں تبدیلی سی آگئی ہے۔ دیگر وزراءکی تقاریر ملتوی کرکے میاں نوازشریف اپنے مختصر خطاب کے بعد وزراءسمیت وہاں سے روانہ ہوئے۔ ائرپورٹ سے میں وزراءکالونی پہنچا جلسے کی مصروفیت کے باعث تھوڑا آرام کرنے لگا تو مجھے اطلاع ملی کہ جنرل پرویزمشرف کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ضیاءالدین بٹ کو اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ میں نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنے سٹاف سے کہا کہ فوری سامان پیک کرو۔ حالات بتا رہے ہیں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پھر خبر ملی کہ وزیراعظم ہا¶س کو فوج نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ میں وزیراعظم ہا¶س پہنچا اور اندر داخل ہونا چاہا تو فوجیوں نے ہمیں روک دیا۔ یہ بتانے کے باوجود کہ میں وفاقی وزیر ہوں۔ ایک فوجی نے کہا آپ اندر نہیں جا سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ فوری واپس چلے جائیں۔ واپسی پر میں نے دیکھا کہ پی ٹی وی کے اردگرد بھی فوجی جوان جمع ہیں اور چند فوجی پی ٹی وی کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ رفتہ رفتہ ساری صورتحال سمجھ آرہی تھی کہ فوج نے ٹیک اوور کر لیا ہے۔ وزراءکالونی پہنچا تو وہاں بھی فوج گھیرا¶ کرچکی تھی۔ یہاں بھی ہمیں اندر جانے سے روک دیا گیا تو میں نے انہیں بتایا ”میں وہی ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔ خیر انہوں نے مجھے وزراءکالونی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ کالونی میں داخل ہونے کے بعد ایک منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک شخص دھوتی باندھے سر پر کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائے کالونی سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے پہچان لیا۔ بعد ازاں یہ شخص جنرل مشرف کی حکومت میں وفاقی وزیر بھی بنا دیا گیا ۔جنرل پرویز مشرف نے مکمل طور پر ٹیک اوور کرنے کے بعد ہماری نقل و حمل پر پابندی لگا دی ۔ میرے لئے یہ صورتحال پریشان کن تھی کہ ایک بار پھر ہمارا ملک مسائل میں جکڑلیا گیا ہے جس سے چھٹکارہ پانے کیلئے نہ جانے اب کتنے سال درکار ہوں گے۔ نظربندی کے چند روز بعد حلیم صدیقی ‘ یاسین وٹو مرحوم‘ تہمینہ دولتانہ کے گھر اکٹھے ہوئے وہاں پر حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی ۔ لہٰذا ہم سب اس بات پر متفق ہوئے فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے بیگم کلثوم نوازشریف کو میدان سیاست میں لایا جائے اور بیگم کلثوم کو قیادت کرنے کے لئے تیار کرنے کی ذمہ داری تہمینہ دولتانہ کو سونپ دی گئی اور تہمینہ دولتانہ نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی اور جدوجہد کا آغاز ہونے لگا۔ پابندیاں کچھ نرم ہوئیں مسلم لیگ کے تمام لیڈر راجہ ظفر الحق کی قیادت میں جمع ہوئے اور 29 ممبران کی رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ساتھ ہی ہمیں حکومت کی طرف سے پیشکش بھی کی کی جانے لگی، لیکن نوازشریف کے بغیر سب نے انکار کر دیا اورفوجی آمریت کے خلاف جدوجہد جاری رہی۔ میاں نوازشریف‘ میاں شہبازشریف کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد جمہوریت کی بحالی کی ایک طویل کہانی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا 9/11 کے معاملے میں جنرل پرویزمشرف کے لئے امریکہ کو انکار ممکن نہیں تھا۔ سابق ادوار پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہی صورتحال نظر آئے گی امریکہ ہماری خارجہ پالیسی پر ہمیشہ حاوی رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈر تھا جو سٹینڈ لینے کی جرات رکھتے تھے کیونکہ وہ سر اٹھا کر جینا چاہتا تھا۔ ہمارے جرنیلوں کی تربیت ہی امریکہ میں ہوتی ہے پھر بھلا آقا کو انکار کون کر سکتا ہے۔ آپ غور کریں جتنے بھی ریٹائرڈ جنرل ہیں ان میں سے بیشتر اس وقت امریکہ میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ دوسری جانب اپنے ملک میں معیشت پا¶ں پر کھڑا ہونے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی آمر آ کر ہمیں پھر پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ حالانکہ جرنیلوں سول بیوروکریٹس کے بعد کرپشن میں سیاستدانوں کا تیسرا نمبر آتا ہے۔ چونکہ سیاستدان عام لوگوں میں رہتا ہے۔ قوم کی نظریں اسی پر مرکوز ہوتی ہیں۔ اس لئے اس کا کوئی فعل چھپا نہیں رہتا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن