اٹھارہ دن کہا جاتا رہا ہمیں جوائن کر لیں نوازشریف کو بھول جائیں: غوث علی شاہ
سید غوث علی شاہ
سید غوث علی شاہ کا شمار صوبہ سندھ کے قدآور مسلم لیگیوں میں ہوتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ءکو وہ عملاً سندھ کے وزیراعلیٰ تھے لیکن ان کا آئینی عہدہ ”ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر فار سندھ افیئرز“ تھا اور درجہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ وہ مسلم لیگ (ن) صوبہ سندھ کے صدر بھی تھے۔ 12 اکتوبر 1999ءکی رات وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس سندھ میں تھے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے نوازشریف حکومت ختم کردی ۔زیر نظر مضمون12 اکتوبر کی رات اوربعد میں ان کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات کا احوال ہے۔
لگ بھگ رات ایک بجے جنرل پرویز مشرف کی تقریر سن کر اپنے ذاتی گھر شفٹ ہوگیا۔ گھر پہنچنے کے بعد 45 منٹ بعد رینجرز آگئی جنہوں نے گھر پر قبضہ کرلیا۔ چار پانچ دن بعد ایک فوجی افسر آیا اور اس نے کہا کہ طیارہ کیس میں آپ کا کردار کیا تھا۔ اس بارے میں انکوائری ہوگی اور آپ کا بیان ہوگا۔ لگ بھگ اٹھارہ دن فوجی افسر آتے اور کہتے رہے کہ آپ ہمیں جوائن کریں‘ نوازشریف کو بھول جائیں مگر میں نے صاف کہہ دیا کہ میرے لئے ایسا ممکن نہیں۔ انہوں نے مجھے گنوانا شروع کیا کہ مجھ سے نوازشریف نے کیا کیا حق تلفی کی۔ میں نے کہا کہ میرے ساتھ وہ کچھ بھی کرتے رہے لیکن باہر تاثر یہی ہے کہ ہم آپس میں دوست ہیں میں آپ کو جوائن کروں گا تو دوستی پر لعنت پڑے گی‘ دوسری لعنت یہ پڑے گی کہ ایک سندھی نے پنجابی سے دوستی نہیں نبھائی‘ تیسرے لوگ کہیں گے کہ سندھی اور پنجابی دوست ہو ہی نہیں سکتے‘ چوتھے کہا جائے گا کہ سندھ کے سپوت نے دوست پر اقتدار کو ترجیح دی۔ سو میں نے انہیں دوٹوک جواب دے دیا کہ نوازشریف کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے فوجیوں کی بات 18 دن میں نہ مانی تو وہ مجھے ملیر ملٹری بیرکس میں لے گئے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل مجھ سے انکوائری کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے طیارہ کیس میں نامزد کردیا۔ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہمیں پیش کیا گیا وہاں میرے علاوہ میاں نوازشریف‘ شہبازشریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ سعید مہدی‘ سیف الرحمن اور چودھری امین کو بھی پیش کیا گیا۔مگرپنجاب سے تعلق ہونے کے باوجودچودھری محمد امین ڈی جی سول ایوی ایشن وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ جسٹس رحمت حسین جعفری نے انصاف کیا اور ہم سب کو ماسوائے نوازشریف بری کردیا۔ میاں نوازشریف کو عمر قید کی سزا دی۔ سندھ ہائیکورٹ میں میاں نوازشریف نے عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کی جبکہ فوجی حکومت نے ہماری بریت کیخلاف اپیل دائر کی۔ میرے وکیل جسٹس (ر) آفتاب فرخ اور حفیظ پیرزادہ تھے۔ تاہم ہائیکورٹ نے دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ سید غوث علی شاہ نے کہا کہ میرے خلاف جب کچھ نہیں ملا تو مجھے ایک مہینہ کیلئے نظربند کردیا گیا پھر دوسرا مہینہ اور پھر تیسرا مہینہ نظربندی برقرار رہی۔ اس دوران میری طبیعت خراب ہوگئی۔ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر مجھے بیرون ملک علاج کرانے کی اجازت ملی جس کے بعد میں صحت یاب ہوکر وطن واپس آیا۔