• news
  • image

12 اکتوبر اداروں سے باہمی ٹکراؤ کا حتمی نتیجہ

1958ء میں پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافد ہوا تو وہ بھی اکتوبر ہی کا مہینہ تھا لیکن یہ فوج نے نہیں بلکہ پاکستان کے اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے 7 اکتوبر کو اپنے ایک حکم کے تحت آئین کو معطل کر کے نافذ کیا تھا بعد ازاں 27 اکتوبر کو پاک فوج کے سپہ سالار جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کا تختہ الٹ کر ملک پر فوجی حکومت قائم کردی۔ ملک کی آزادی کے محض گیارہ برس بعد فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس پر طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بحث اور تجزیے جاری ہیں۔ اختلاف رائے انسانی فطرت ہے لیکن جب اس میں ضد اور تعصب شامل ہو جائے تو پھر اتفاق اور حتمی رائے پر متفق ہونا ممکن نہیں رہتا نہ ہی ان مسائل کی حقیقی نشاندہی ممکن رہتی ہے جس کی بنیاد پر رائے کا اختلاف کشیدگی اور باہمی ٹکراؤ تک پہنچ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے حضرت قائداعظمؒ کی آزادی کے فوری بعد رحلت نے جمہوریت کے نام پر پاکستان میں ایسے طبقات کی راہ ہموار کردی جو ماضی میں تحریک پاکستان کی حمایت سے زیادہ تاج برطانیہ سے وفاداری کا دم بھرتے رہے ویسے بھی یہ خطہ جس پر پاکستان قائم ہے تقسیم سے قبل بھی جاگیرداروں‘ نوابوں‘ ملکوں‘ سرداروں اور خانقاہوں کے وارثین کے زیرتسلط تھا۔ یہ طبقہ فطری پور پر کمزور کو دبانے اور طاقتور کو سلام اور اس کی تابعیداری کی سرشت رکھتا ہے۔ اپنی ذات‘ اپنے مفادات اور اپنی شناخت سے وفاداری بھی اس طبقہ کی سرشست کا حصہ ہے۔ مرکزی قیادت جو کسی بھی طرح کے اختلافات یا الزامات سے بالاتر تھی اس کے منظر سے ہٹتے ہی اق تدار جاگیردارانہ مزاج کے حامل اول الذکر طبقہ کے ہاتھ میں آیا تو سب اق تدار پر اپنی گرفت قائم کرنے اور جمہوری اقدار کے منافی ایک دوسرے کو اقتدار کی راہدارزیوں سے باہر نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہو گئے۔ اقتدار کی کشمکش کیلئے کی جانے والی باہمی سرپھٹول میں پاکستان کے جتنے سربراہ تبدیل ہوئے اس پر بھارتی حکمرانوں کو بھی پھبتی کسنے کا موقع ملا کر بھارت میں حکمران اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے پاکستان میں جس تیزی سے قیادتیں تبدیل ہوتی ہیں۔

پاکستان کے برعکس بھارت میں فوج کو اقتدار پر قبضے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں پڑی کہ ایک تو بھارتی سیاسی قیادت کو کانگرس جماعت کی تشکیل کے وقت سے طویل سیاسی تجربہ تھا اور کانگرس جماعت میں شامل تمام سیاستدان انگریز حکمرانوں سے قریبی تعلق یا دوستانہ مراسم کے باوجود تحریک آزادی کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوطی سے قائم رکھے ہوئے تھے علاوہ ازیں 1937ء میں جب تاج برطانیہ کے زیر کنٹرول مشترکہ ہند میں کانگرس کو حکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو ہندو قیادت نے زرعی اصلاحات کا نفاذ کر کے جاگیرداروں اور نوابین کو محلات نما گھروں کے علاوہ مختصر جاگیروں تک محدود کردیا اور آزادی کے بعد نافذ کی جانے والی زرعی اصلاحات نے تو راجاؤں‘ مہاراجوں‘ نوابوں اور جاگیرداروں کو علامتی شناخت تک لاکھڑا کیا ان کو گزراوقات کے وظیفہ مقرر کیاگیا لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی کم ہوتا چلا گیا۔ ان کی تمام جاگیریں ضبط اور محلات کے ساتھ ملحقہ اراضی بھی سرکار کے نام کردی گئی۔ نواب اور راجے اپنے محلات نماز گھروں کو ہوٹلوں یا عجائب گھروں میں تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اقتدار کاحصہ بننے کیلئے کسی قسم کا جوڑ توڑ یا سازشی طریقہ بروئے کار لا سکیں۔ بھارت کے دیگر تمام ادارے بھی تاریخی تجربہ رکھنے والے مستحکم مقام کے حامل تھے۔ ریاست میں ان کا کردار کیا ہے اور کیا ہو گا سب نہ صرف اس سے واقف تھے بلکہ سختی سے اپنے لئے متعین کردہ کردار پر کاربند بھی تھے۔
پاکستان میں کیا ہوا؟ یونیسٹ جماعت جو برطانوی ہند میں انگریز کی خوشنودی سے 1937ء کے بعد اقتدار میں رہی اس کے بیشتر رکن سیاستدان جو معروف جاگیردار تھے آزادی سے کچھ ہی عرصہ قبل مسلم لیگ کا حصہ بن گئے اور آزاد پاکستان میں قائداعظم کی رحلت کے بعد نواب لیاقت علی خان کے قتل کے نتیجہ میں اقتدار کی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ جمہوری اقدار کی جگہ جاگیردارانہ سوچ اور اصولوں نے لے لی جو آخر کار ملک کو مارشل لاء تک لے گئی۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں ہمارے سیاستدان اور عسکری ادارے بھارت سے تعلقات کے نقطے پر ہمیشہ اختلافات کا شکار رہے۔ فوج بھارت سے تعلقات کیلئے کشمیر سمیت بھارت سے دیگر تمام اختلافات کے حل پر بضد رہی جبکہ سیاستدانوں کا بڑا حصہ ان تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر بھارت سے برادرانہ و دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر بضد رہا۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں جمہوری اقدار کی راہ میں موروثی طرز سیاست نے مسائل پیدا کئے اور اس پر کاربند سیاسی خانوادوں نے میڈیا میں بھی اپنے لئے حمایتی پیدا کر لئے جو سیاسی جماعتوں پر ایک ہی فرد یا خاندان کی اجارہ داری یا املاک کی طرح ان کے قبضے کو ہی جمہوریت اور جمہوریت کا حس قرار دینے کیلئے دلائل کے انبار لگاتے رہے اور ابھی تک اس پر قائم ہیں۔
1973 کا آئین جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے طویل بحث و مباحثوں کے بعد اتفاق رائے سے منظور کیا۔ اس میں بھی فوجی آمر ہوں یا سیاسی جماعتوں کے ’’مالکان‘‘ انہوں نے اپنی ضرورت اور سیاسی تحفظ کیلئے ترامیم کرائیں جس نے ملک میں یکجہتی پیدا کرنے کی بجائے مزید انتشار اور باہمی اختلافات کو جنم دیا باہمی اعتماد کا خاتمہ ہوا تو سیاسی حکومتوں کی آمد اور انہیں باہر نکال کر اقتدار پر فوج کے قبضہ کا سلسلہ جاری رہا لیکن اب 2008ء کے بعد سے جمہوریت تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے تو اداروں کے باہمی ٹکراؤ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے تک ملک میں مارشل لاء کی آمد کی کہانیاں زوروں پر تھیں جسے فوج کے نمائندے ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر رد کردیا کہ مارشل لاء کا سوچنا ہی نہیں چاہئے لیکن سب سے اہم سوال عوام الناس کا ہے کہ انہیں کیا ملا عوام جو آج بھی صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں جنہیں عدالتوں سے انصاف میسر نہیں جو اپنے بچوں کیلئے تعلیم خرید کرنے کیلئے مجبور ہیں جن کے پاس روزگار کے مواقع میسر نہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا سوچیں تو گیس اور بجلی کے بل نہیں بھر سکتے۔ان کیلئے دو وقت گھر کا چولہا جلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔ اورنج ٹرین‘ میٹرو بس منصوبوں پر اربوں خرچ کرنے والا ملک اپنے شہریوں کو صحت‘ تعلیم اور تحفظ دینے کو تیار نہیں جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے جہاں راہ چلتے عام شہری لٹ جاتے ہوں۔ جہاں عوام کو تھانوں میں بے توقیر کیا جاتا ہے جہاں تول کا نظام بھتہ خور سرکاری اعمال طے کرتے ہوں خالص ادویات دستیاب نہ ہوں کتوں اور مردار جانوروں کی چربی سے بچوں کی ٹافیاں تیار ہوتی ہوں‘ بھوک افلاس اورفاقہ کشی سے تنگ آکر آئے روز لوگ خودکشیاں کر رہے ہوں ‘ کرپشن‘ بدعنوانی ‘ بے حیائی اورر بے اصولی کا چلن رواج بن جائے۔ وہاں 12 اکتوبر جیسے و تریحات اور جمہوریت کی بقا کیلئے اس موضوع پر بحث اس لئے ضرور خوش آئند ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان کے عوام ملک میں جمہور کی مرضی سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے والی حکومت کے چلتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ آمریت کے نہیں بلکہ جمہوریت کے حامی ہیں تو پھر جمہوریت کے علمبرداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جمہور یا عوام کے حقوق کی پاسداری کرے۔ اپنے اثاثوںا ور غیر ملکی بنکوں میں جمع کی جانے والی دولت میں اضافے کیساتھ ہی عوام کے معاشی مسائل کا حل بھی محلوظ خاطر رکھے تو پھر کس کی جرات ہے کہ وہ ملک میں مارشل لاء کا نافذ کرے۔

خالد بیگ

خالد بیگ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن