• news
  • image

سول ملٹری کشمکش اور12اکتوبر

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ”سول اینڈ ملٹری“ ریلیشن کا مسئلہ سابق نااہل وزیراعظم کے دوسرے دُور میں سامنے آیا۔ جب چند منٹوں میں شریعت کے نام پر پارلیمنٹ سے ایک بل منظور کرا لیا گیا تھا اس وقت کی سینٹ میں یہ بل منظور نہ ہوسکا یوں ”امیر المومنین“ بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اباجی کو سعودی عرب کا نظام بہت پسند تھا۔ شریعت بل نے برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کی دلی خواہش ظاہر کر دی؟ جمہوریت کی آڑ میں کھیلے جانے والے اس کھیل نے اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے کئے پھر میاں صاحب نے فیصلہ کیا پہلے آرمی کی قیادت پر قبضہ کیا جائے چنانچہ ضیاءالدین بٹ صاحب کو آرمی چیف بنانے کی کوشش ہوئی۔ جی ایچ کیو پر قبضہ نہ ہوسکا، جواب میں فوج نے وزیرعظم ہاﺅس پر قبضہ کر لیا وزیراعظم کی جانب سے قوم سے خطاب کی تحریر اور اصل عزائم فوج کے سامنے آگئے۔ نذیر ناجی صاحب ان دنوں وزیراعظم کے بہت قریب تھے تقریریں وغیرہ وہی لکھا کرتے تھے لیکن اس خطاب کے بارے میں ان کا بیان تھا کہ یہ حسین نواز کے پوائنٹس کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔ بعد میں ناجی صاحب نے 12 اکتوبر 1999ءکی روداد اپنے کالموں میں لکھ دی کہ میاں صاحب ”کڑاکے“ نکالنے کی پوری تیاری میں تھے۔ گرفتاری کے بعد سعودی عرب کی کوششوں سے ایک معاہدہ کے ذریعہ 10 سالہ جلا وطنی اختیار کی اور یہ فیملی جدہ چلی گئی جہاں انہیں سعودی فرمانروا نے رہنے کے لئے ایک محل دے دیا۔ یہاں میاں صاحب نے شب و روز مستقبل کی منصوبہ بندی اور سوچ بچار میں گزارے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی یہ حقیقت تسلیم کر لی کہ آپس میں لڑنے کی بجائے اقتدار کے معاملات طے کر لئے جائیں چنانچہ مشہور زمانہ چارٹر آف ڈیموکریسی تیار کیا گیا اس پر لندن میں ایک تقریب میں دستخط ہو گئے طے ہوا کہ NRO کے نام پر دونوں پارٹیوں کے جتنے مقدمات ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے ہیں اور جو عدالتوں میں زیر التوا ہیں وہ بھی ختم کر دیئے جائیں۔ پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہے گی مرکز میں باری باری حکومت کریں گے جو پارٹی اپوزیشن میں ہوگی وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن آج تک برسراقتدار ہیں۔ اس وقت سے اب تک دونوں صوبوں میں وہ لوٹ مار ہوئی کہ اللہ کی پناہ ! سندھ میں لوٹ مار کو پارٹی کے سرکردہ لوگوں نے اپنا حق سمجھ لیا صرف ڈاکٹر عاصم کے خلاف 470 ارب روپے کی لوٹ مار کے مقدمات سامنے آچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پورے ملک میں لٹیروںکا کڑا احتساب ہونے جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں، سب پردے اُٹھ چکے ہیں۔ ریاست کو کنگال بنا کر بیرون ملک پیسہ اور جائیدادوں کا انبار لگا لیا ہے۔ اب ہر پاکستانی یہ سوچ رہا ہے کہ ریاست نے ہمیں کیا دیا ہے جو ہم ایک لاکھ پچیس ہزار فی کس کے حساب سے مقروض ہوگئے ہیں؟موجودہ سیاستدانوں نے بے روزگاری، مہنگائی، عدم تحفظ کے سوا کیا دیا ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ اپنا علاج کرا سکتے ہو، بچوں کو پڑھا سکتے ہو، دوائیں اس قدر مہنگی ہیں کہ درمیانہ طبقہ کے لئے بھی خریدنا مشکل ہوچکا ہے حتیٰ کہ پینے کا صاف پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔ عوام جو نلکوں کا پانی پیتے ہیں وہ مضر صحت ہے اور طرح طرح کی بیماریاں سامنے آرہی ہیں۔ دیہاتوں اور چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں رہنے والوں پر کیا گزر رہی ہے۔ اس کا تصّور بھی کرنا مشکل ہے۔ بنیادی ضروری مسائل سے توجہ ہٹا کر نان ایشوز پر بحث ہوتی ہے۔ دشمن چاروں طرف سے حملہ کرنے کے لئے صف بندی کئے بیٹھا ہے۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ اور وزیر خارجہ بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکی صدر بھی کفن پھاڑ کر چیخ چلا رہے ہیں ادھر چار سال بعد جس کو وزیر خارجہ بنایا ہے۔ اس کا مشن، نواز شریف اور مودی کا مشن پورا کرنا ہے۔ کیپٹن صفدر کے لندن سے لاہور پہنچنے ہی گرفتاری پر لیگیوں نے جو کیا سو کیا اس کی بیوی مریم صفدر بھی ایئرپورٹ سے اپنے شوہر کو نیب کی حراست میں چھوڑ کر بائے بائے کرتی چلی گئیں۔ یہ ہے وہ مشرقی روایات کی حامل خاتون جو کہتی ہیں کہ ہم حکمران خاندان ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ر) جناب جاوید اقبال صاحب کی چیئرمین نیب کے طور پر تقرری وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے مشروط تھی۔ حزب اختلاف دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک پیپلز پارٹی اور دوسری تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان، خورشید شاہ صاحب نے لولی پوپ دے کر باقی جماعتوں کو بیوقوف بنایا۔ بظاہر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے درمیان سخت لڑائی ہو رہی ہے۔ اندر خانہ بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کے ذریعہ متفقہ امیدوار جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب کو نامزد کر دیا۔ ملک ریاض صاحب نے نوازشریف اور زرداری کو کیا گارنٹی دی ہے وہ آنے والے دنوں میں سامنے آ جائے گا۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعہ نیب کے بال و پر کاٹنے اور ناخن تراشنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں اگر حکومت اس آئینی ترمیم میں کامیاب ہوگئی تو نیب ایک بے ضرر ادارہ بن کے رہ جائے گا۔ پھر چیئرمین کوئی بھی ہو نواز شریف اور آصف علی زرداری کو کیا فرق پڑتا ہے۔! یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی آرمی محب وطن پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ ان حالات میں قومی اتحاد، اتفاق کی ضرورت ہے نہ کہ انتشار کی۔ ذاتی مفادات اور لوٹے ہوئے سرمایہ کے تحفظ کے لئے لاکھوں انسانوں کی قربانی کے نتیجے میں یہ مملکت خداداد وجود میں نہیں آئی ہے۔ یہ سوچ عملی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن